شائد نئے سال میں ہم عوام کے حالات بدل جائیں
بقلم:کاشف شہزاد
آج نئے سال کا پہلا دن ہے, پوری قوم اُمید و آس میں ہے کہ اس سال کچھ ایسا ہوگا کہ ملکی حالات بدل جائیں گے, اس سال ضرور ملکی عوام کی پریشانیوں اور تکلیفوں میں کمی ہوگی۔ یہ اُمید تو بہت خوب لگائی ہے ہم نے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا, ہر گزرتے سال کے ساتھ ہماری عوام کی تکلیفوں، دکھوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ملکی حالات بہتری کی طرف مائل ہونے کی بجائے گھمبیر ہوتے ہمیشہ نظر آئے ہیں, اسی لئے وطنِ عزیز کے لئے سال ضرور بدلتا ہے مگر حالات نہیں۔
گزشتہ سال کی اگر بات کریں تو بجلی، تیل، گیس اور روزمرہ استعمال کی چیزوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جس سے عام آدمی مہنگائی کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا، دوسری جانب ملکی زراعت جو معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے اُسکا جنازہ نکال دیا گیا، گندم، مکئی دھان اور کپاس کی قیمتوں میں اس قدر کمی کر دی گئی کہ کسانوں کو سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑا، اسکے ساتھ ساتھ ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں نے عوام کا کچومر نکال دیا۔ ان حالات میں اگر دیکھیں تو پاکستان کی موجودہ زندگی میں صرف چند خاندانوں کے حالات ضرور بدلے مگر عوام کے حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ ملک کے لئے ہمیشہ یہی دعا نکلی کہ کبھی اس ملک سے بھی مایوسی کی گھٹائیں ختم ہوں, ملک کے لئے ترقی کی راہیں کھلیں, اس ملک کے غریبوں کو بھی خوشحالی نصیب ہو۔
وطنِ عزیز کا ہر غریب آدمی اپنی حکومت سے صرف یہی توقع کرتا ہے کہ اُسے دو وقت کی روٹی، پہننے کے لئے کپڑا, عزت سے رہنے کے لئے گھر, بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہتر سکول اور صحت کے لئے علاج معالجے کی سہولت میسر آئے اور اسی کے لئے وہ ہر وصول کنندہ چیز پر ٹیکس کی ادائیگی کرتا ہے لیکن بدلے میں جب اسے یہ چیزیں نہیں ملتی تو وہ ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے دھکے کھا کھا کر مایوس ہو جاتا ہے۔ دُنیا کی فلاحی ریاستوں میں یہ سب عوامی سہولتیں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہیں مگر ہمارے ملک میں عوامی مسائل اور تکلیفوں سے مبرہ حکمرانوں کو آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول میں دلچسپی ہے تاکہ وہ مزید مراعات کے اہل ہو سکیں۔ ملک قرضوں میں دھنستا جائے حتیٰ کہ ڈیفالٹ کے خطرے تک پہنچ جائے کسی کو اسکی کوئی فکر نہیں۔ یہ قرضے اپنی غریب عوام کی سہولتیں پوری کرنے کے نام سے لئے تو جاتے ہیں مگر حقیقت میں ان قرضوں کا اثر کہیں اور بڑھتا ہے۔ بیرونی قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا مقروض ملک جہاں ملکی عوام مہنگائی کی چکی میں پِس رہی ہے وہاں ان کے لئے کچھ کرنے کی بجائے سرکاری خزانے کے منہ اراکین اسمبلی کے لئے کھولے جائیں تو وہاں عوام کے حالات نہیں بدلتے۔
جب سے ملک کی نئی حکومت آئی ہے عوام کو یہی نوید سنائی جا رہی ہے کہ ملکی حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں, سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ساری حدیں پار کر چکی ہے، مہنگائی کی شرح تیزی سے کم ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود خوشحالی عوام سے میلوں دور ہے۔ پچھلے سال سے لیکر نیا سال آنے تک مہنگائی میں کمی صرف سرکاری کاغذات میں ریکارڈ کی گئی کیونکہ اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مزدور اور غریب کو اس دوران کیا ملا؟ اسکی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لئے کیا کیا گیا، جس کے لئے دو وقت کی روٹی زندگی کا سب سے بڑا چینلج بن چکا ہے، ان کے لئے حکومت ابھی موّثر معاشی پالیسیاں بنانے سے قاصر ہے۔ میرا یہاں ایک سوال ہے کہ کیا یہ ملک صرف امراء کے لئے بنا ہے جس میں جینے کا حق صرف انہیں کو ہے؟ اللّٰہ کرئے اس نئے سال میں عوام کے لئے کوئی تبدیلی آئے جس میں انکی بڑھتی ہوئی تکلیفیں، پریشانیاں کم ہونی شروع ہوں۔