الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی ’ٹیسلا‘ کے مقابلے میں ایک چینی کمپنی ’بلڈ یوئر ڈریمز‘ یا ’بی وائی ڈی‘ کے سٹاکس کی مالیت میں گزشتہ ماہ اس وقت اچانک اضافہ ہوگیا جب کمپنی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں ان کا منافع دوگنےسے بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ کار ساز کمپنی ’بی وائی ڈی‘ سہ ماہی اعتبار سے گاڑیوں کی پیداوار میں ٹیسلا سے آگے نکل چکی ہے اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے کی دوڑ میں دوسرے نمبر پر پہنچ گئی ہے۔
بی وائی ڈی کمپنی کی کامیابی چین میں آٹو انڈسٹری کی تیز رفتار ترقی کی بھی عکاس ہے۔ واضح رہے کہ چین نے حال ہی میں دنیا بھر میں گاڑیوں کی برآمد میں جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیوں کی برآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
چین اور الیکٹرک گاڑیاں برآمد کرنے والے کئی ممالک، بشمول امریکہ اور یورپی یونین، کے درمیان تناؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا نئی اور شفاف ٹیکنالوجی پر منتقل ہو رہی ہے، مغربی ممالک کی جانب سے چینی مصنوعات پر انحصار کم کرنے کی کوشش کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی ایک مثال یہ بھی ہے۔ بی وائی ڈی کو شروع سے ہی ایک بات کا فائدہ حاصل رہا کہ یہ دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں دراصل بیٹری تیار کرنے والی کمپنی تھی جس نے بعد میں گاڑیاں بنانا شروع کردیں اور بیٹری کے بنانے میں اس کمپنی کی مہارت اس کے کام آئی۔
کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو وانگ شوانفو دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں جن کی دولت کا اندازہ 18 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ وہ 1966 میں چین کے ایک غریب صوبے میں پیدا ہوئے اور ان کے والدین کاشتکار تھے۔کم عمری میں ہی وانگ یتیم ہو گئے اور ان کی پرورش بڑے بھائی اور بہن نے مل کر کی۔
شوانفو نے انجینیئرنگ اور میٹالرجی کی فزیکل کیمسٹری میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے ایک کزن کے ساتھ ’بی وائی ڈی‘ کمپنی قائم کی۔ ان دونوں نے مل کر سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانکس میں استعمال ہونے والی بیٹریاں بنانے میں نام پیدا کیا اور مہنگی جاپانی مصنوعات کی جگہ سستی مصنوعات متعارف کروائیں۔
سنہ 2002 میں یہ کمپنی پبلک ٹریڈنگ کمپنی بن گئی اور جلد ہی اس نے سرکاری کمپنی ’کوئنچوان آٹو موبائل‘ خرید لی جسے معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔ جس وقت انہوں نے چینی سرکاری کمپنی خریدی اس وقت الیکٹرک گاڑیاں اتنی عام نہیں ہوئی تھیں تاہم چینی حکام عالمی منڈی میں ایک خلا دیکھ سکتے تھے جس کو انھوں نے چینی مصنوعات سے پُر کرنے کا فیصلہ کیا اور سنہ 2000 کی ابتدا میں ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیز متعارف کروائی گئیں۔
’بی وائی ڈی‘ کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا۔ ان کے پاس پہلے ہی بیٹریاں موجود تھیں جو بجلی کی گاڑیوں کا انجن بن سکتی تھیں۔
سنہ 2008 میں امریکی ارب پتی وارن بوفے نے بی وائی ڈی کے 10 فیصد حصص خرید لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک دن یہ کمپنی عالمی آٹوموبائل منڈی کی سب سے بڑی کھلاڑی بن جائے گی۔‘
اور وہ درست تھے۔ آج چین بی وائی ڈی کی وجہ سے ہی عالمی الیکٹرانک گاڑیوں کی منڈی پر راج کر رہا ہے۔ اور چین اس سبقت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ گذشتہ جون میں چین نے الیکٹرانک گاڑیوں پر 72 ارب ڈالر سے زیادہ ٹیکس چھوٹ دی جو چار سال کے دورانیے پر محیط تھی۔ کم ہوتی ہوئی فروخت کے رجحان میں یہ کافی بڑی چھوٹ تھی۔
مارہین کی رائے میں ’بی وائی ڈی‘ کی کامیابی کی وجہ اس کا بیٹریوں کا کاروبار ہے جو کسی بھی الیکٹرک گاڑی کا سب سے مہنگا حصہ ہوتی ہیں۔ تاہم بی وائی ڈی خود بیٹریاں بناتا ہے تو اسے کافی بچت ہوتی ہے۔ ٹیسلا سمیت دیگر کمپنیاں بیٹریوں کے لیے دوسری کمپنیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
یو بی ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق بی وائی ڈی کو چین میں ہی بننے والے ٹیسلا کے ماڈل تھری سیڈان پر 15 فیصد سبقت حاصل ہے۔
بی وائی ڈی کی ’سی گل‘ نامی گاڑی 11 ہزار ڈالر کی ہے جبکہ ٹیسلا کی ’ماڈل تھری سیڈان‘ چین میں 36 ہزار ڈالر کی ہے۔
بی وائی ڈی الیکٹرانک گاڑیوں کی منڈی سے ہٹ کر بھی ترقی کر رہی ہے۔ حال ہی میں اس کمپنی نے جرمنی کی والکس ویگن کو پچھاڑا اور چین میں فروخت ہونے والا سب سے بڑا گاڑیوں کا برینڈ بن گئی۔
بیٹر کے زوردار شارٹ نےایمپائر کے منہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل…
پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج رکوانے کے لیے پس پردہ ملاقاتیں جاری ہیں۔سینیئر صحافی انصار…
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…
معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…
علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…