آج دنیا کی بیشتر گاڑیاں چلانے والے ڈرائیور مرد ہیں۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کی دنیا میں پہلی بار کر کو چلانے والا کوئی مرد نہیں بلکہ ایک خاتون تھی۔ اس خاتون کا نام برتھا ہے اور اس نے آج سے سوا صدی قبل پہلی بار کار چلانے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ کار برتھا کے خاوند نے ایجاد کی تھی۔ برتھا نے اس وقت جس دکان سے کار کیلئے اضافی ایندھن خریدا،اس دکان کو دنیا کا پہلا فیول اسٹیشن قرار دیا گیا۔
سوا صدی پہلے برتھانے اپنے شوہر کی ایجادکردہ موٹر کارچلا کر،106کلومیٹر کا سفر کیا اور اپنے سفر کے دوران مختلف بستیوں میں رک کر برتھاگاڑی کے نقص دورکرتی رہیں۔ برتھا نے اس سفر میں جس روٹ پر سفر کیا جرمن حکومت نے اس رُوٹ کو’انسان ذات کے صنعتی ورثے‘کا نام دیاہے۔ برتھا کے شوہر کارل بینز نے گاڑی 1885ء میں ایجاد کی مگر مذہبی حلقوں کے ممکنہ اعتراضات سے ڈر کے انہوں نے اس کار کو گھر کے گیراج میں چھپا دیاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ پر کلیسا کی حکمرانی تھی اور مذہبی پیشوا کسی نئی ایجاد کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کیونکہ انکو ڈر تھا کہ اگر لوگوں نے سائنس کو ترجیح دینا شروع کردی تو ان کے کلیسا ویران ہو جائیں گے اور انکا کاروبار بند ہو جائے گا۔ کارل کی بہادر بیوی اپنے شوہر کو بتائے بغیر دو بیٹوں سمیت تین پہیوں والی کار پر سوار ہوئی اور سو کلومیٹر ڈرائیو کر کے اپنی بیمار ماں کے پاس پہنچ گئی۔ وہ جس چیزکو ڈرائیو کر کے آبائی گائوں پہنچی تھی،لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے کہ آخر گھوڑوں کے بغیرکوئی سواری کیسے چل سکتی ہے؟
برتھا نے بعد میں ایک بار بتایا کہ میرے شوہرکو اپنی ایجادپراعتماد نہیں تھا۔ وہ مذہبی حلقوں سے خوف زدہ تھا کہ شاید اس کی ایجاد کو کفر قرار نہ دے دیا جائے۔ میں نے طے کیاکہ دنیا کواپنے میاں کے کارنامے سے آگاہ کروں گی۔
آج دنیا کے کسی بھی شہر میں کوئی بھی اپنے گھر سے نکل کر جب سڑک پر پہنچتا ہے تو اسے پہلی متحرک چیز کیا نظر آتی ہے؟۔ ظاہر ہے کوئی نہ کوئی گاڑی دکھائی دیتی ہے، جسے کوئی ڈرائیور چلا رہا ہوتا ہے۔ آج ہر ملک میں گاڑیاں چلانے والے بیشتر ڈرائیور مرد ہی ہیں۔