تاریخ دان کہتے ہیں کہ انسان نے آج تک جتنے بھی ٹولز یا اشیا بنائی ہیں ان میں پہیہ سب سے پرانی ایجادات میں شامل ہے۔ ہزاروں سال قبل پتھروں سے پہیے بنتے، پھر لکڑی سے پہیے بننے لگے اور آئرن ایج میں یہ پہیے دھاتوں سے بننے لگے۔ لیکن دھاتی پہیہ جلد خراب ہو جاتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور کئی سو سال قبل ایک سائنسدان نے ویلکنائزیشن کا پراسیس ایجاد کیا جس کے ذریعے ربڑ بنائی جاتی ہے۔ پھر ربر کے ٹائر بنا کر دھاتی پہیوں پر لگائے جانے لگے جس سے سفر آرامدہ ہوگیا اور پہیے دیرپا بننے لگے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹائروں میں بہتری آ رہی ہے مگر پھر بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ سڑک کنارے کوئی گاڑی کھڑی ہے جس کا ٹائر بدلا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہمارے ساتھ بھی ہو جاتا ہے کہ ٹائر پنکچر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ پرانے ٹائروں کو بدلنے کا خرچہ الگ سے ہوتا ہے۔ ٹائروں کو کسی گاڑی کی سب سے کمزور چیزوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے مگر کیا اب یہ سب بدلنے والا ہے؟ کیا ہم سیاہ ربڑ کے بنے ہوئے اور ہوا سے بھرے اس گول ڈونٹ کے آخری دور میں جی رہے ہیں جسے پہلی بار گاڑیوں میں 1890 میں استعمال کیا گیا تھا؟
لکسمبرگ میں ایک ریس ٹریک پر ٹیسلا ماڈل تھری خطرناک موڑ کاٹتی ہے، رفتار بڑھاتی ہے، پھر ہنگامی بریک لگاتی ہے، مگر اس سب میں کچھ بھی حیران کُن نہیں۔جو بات حیران کن ہے وہ یہ کہ اس گاڑی میں بغیر ہوا کے چار ٹائر ہیں جنھیں امریکی ٹائر ساز کمپنی گڈایئر نے بنایا ہے۔ خصوصی پلاسٹک کی تھیلیاں ربڑ کے ایک مضبوط بینڈ کو رِم کے اوپر جمائے رکھتی ہیں۔ جیسے جیسے گاڑی چلتی ہے یہ سپوکس سڑک کے حالات کے مطابق لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
الیکٹرک اور سیلف ڈرائیو گاڑیوں کی وجہ سے ٹائروں میں بھی بدلاؤ آ رہا ہے۔ کمپنیاں اور ٹرانسپورٹ سروسز ایسے ٹائر چاہتی ہیں جن کی دیکھ بھال پر کم سے کم خرچ ہو، یہ پنکچر پروف ہوں، دوبارہ قابلِ استعمال بنائے جا سکیں، اور ان میں ایسے سینسرز ہوں جو سڑک کے حالات کا خاکہ بنا سکیں اور خود کو سڑک کے مطابق ڈھال سکیں۔
شہروں میں اب زیادہ سے زیادہ لوگ گاڑیاں خریدنے کے بجائے رائیڈ بک کرواتے ہیں چنانچہ جتنی دیر تک گاڑی کا ٹائر پنکچر رہے گا، وہ گاڑی پیسے نہیں بنا سکے گی۔ ہوا والے ٹائرز کی اپنی جگہ ہمیشہ موجود رہے گی مگر ہمیں مختلف حل ایک وقت میں استعمال کرنے چاہییں۔ ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں خود کار گاڑیاں پہلے سے زیادہ عام ہیں اور کئی شہروں میں ٹرانسپورٹ بطور سروس (اوبر کریم وغیرہ) موجود ہیں، وہاں ایئرلیس ٹائر کا ہونا بہت ضروری ہے۔گڈایئر کی لیبارٹریوں میں ایئرلیس ٹائروں کو لگاتار 24 گھنٹے تک مختلف اوزان اور رفتاروں پر آزمایا جاتا ہے، یعنی بغیر رکے ہزاروں کلومیٹر روزانہ۔
دوسری جانب گڈایئر کی حریف کمپنی مچلن 2019 سے جنرل موٹرز کے ساتھ مل کر ایئرلیس ٹائروں پر کام کر رہی ہے۔ فروری میں پریس اطلاعات سامنے آئیں کہ مچلن کے منفرد پنکچر پروف ٹائر سسٹم اپٹِس 2024 میں جنرل موٹر کی شیورولے بولٹ الیکٹرک کار میں پہلی بار استعمال کیے جا ئیں گے۔ یہ ٹائر انتہائی مضبوط کمپوزٹ ربڑ اور فائبرگلاس کے امتزاج سے بنائے جائیں گے۔ یہ ٹائر ایک جالی کی شکل میں ہوں گے جو ایلومینیم کے وہیل پر چڑھائے جا سکیں گے۔ مچلن کمپنی ایئرلیس ٹائروں کی دنیا میں سرِفہرست ہے۔ ان کا ٹوئیل نامی ایئرلیس ٹائر 2005 سے مارکیٹ میں ہے اور سست رو گاڑیوں مثلاً کھیتی باڑی کے آلات میں استعمال ہو رہا ہے۔ مگر اس ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں لا کر اسے سڑک پر دوڑنے والی گاڑیوں کے لیے قابلِ استعمال بنانا ایک بالکل مختلف چیلنج ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ہوا والے ٹائروں کو بہتر سے بہتر بنانے کا 130 سالہ تجربہ ہے۔ ایئرلیس ٹیکنالوجی اس کے مقابلے میں بہت نئی ہے۔
مگر اپٹِس ٹائر کا مقصد صرف پنکچر پروف ہونا نہیں ہے بلکہ مچلن کئی برسوں سے تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے ایسے ٹائر بنانے کی کوشش کر رہا ہے جنھیں پگھلا کر دوبارہ قابلِ استعمال بنایا جا سکے۔ مچلن کے مطابق کبھی کبھار ان کی دھاریاں دوبارہ بنوا لینے کے علاوہ ان کی دیکھ بھال و مرمت پر کوئی خرچ نہیں آئے گا۔