پیٹرول کی قیمت دیکھ کر میں نے تو دل کی دھڑکن رکنے لگتی ہے۔ مگر کیا کریں، پیٹرول ڈلوانا تو مجبوری ہے کیونکہ ہم پیٹرول سے چلنے والی گاڑی اور موٹر سائیکل جو استعمال کرتے ہیں ۔جس کسی نے بھی روز دفتر جانا ہو، بچوں کو سکول سے پِک کرنا ہو یا گھر سے نکلنا ہو اسے معلوم ہے کہ پیٹرول ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر گزارا ممکن نہیں۔
اسی خوف سے میں نےسب سے سستی الیکٹرک کار رینکو آریا خریدی تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ کیا ملک میں الیکٹرک کار رکھنا کامیاب تجربہ ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر پیٹرول عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گیا تو یہ 30 لاکھ کی کار سب کی ضرورت بن جائے گی۔ جس قیمت پر یہ کار متعارف کرائی گئی ہے، قریب یہی قیمت اب پاکستان میں عام چھوٹی گاڑیوں کی ہے اور اس سے کم میں الیکٹرک کار خریدنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
کیونکہ فی الحال پاکستان میں سب سے سستی الیکٹرک کار ایم جی کمپنی کی زیڈ ایس ای وی ہے۔ یہ ایس یو وی 85 لاکھ سے 1 کروڑ 10 لاکھ روپے میں دستیاب ہے اور اوڈی ای ٹران جیسی گاڑیوں کا ذکر تو رہنے ہی دیں، جو 5 کروڑ روپے سے کم میں نہیں ملتیں۔ ملک میں بظاہر الیکٹرک گاڑیوں میں دلچسپی تو بہت ہے مگر ان کے زیادہ خریدار نہیں۔
کمپنی کے مطابق رینکو آریا کو گھر میں فُل چارج کرنے پر 600 سے 700 روپے تک کا خرچ آتا ہے جس کے بعد اسے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر 200 کلومیٹر تک کی رینج کے ساتھ چلایا جا سکتا ہے۔ بظاہر شہر کی ڈرائیو کے لیے قریبا تین روپے فی کلومیٹر کی قیمت اتنی زیادہ نہیں ہے۔دوسری طرف الیکٹرک گاڑیوں کے ماہر نوید ارشد کی رائے میں رینکو آریا چلانے میں اچھی ہے لیکن پاکستان کی مارکیٹ میں اسے کچھ چیلنجز درپیش ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ چھوٹی گاڑیاں چونکہ ہلکی ہوتی ہیں تو شہر میں ان کی ایفیشنسی بہتر ہوتی ہے لیکن رینکو آریا صرف اسی صورت پاکستان میں کامیاب ہو سکے گی اگر اس کے پارٹس وغیرہ کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بظاہر یہ کار ایسے ماحول کے لیے بنی ہے جہاں کی سڑکیں بہت اچھی ہے۔ خراب سڑکوں پر اس کی ڈرائیو اور سسپنشن کیسی ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابھی لوگوں میں اتنی الیکٹرک گاڑیوں کے بارے میں زیادہ آگاہی بھی نہیں۔ جب لوگ اسے سڑکوں میں چلتا دیکھیں گے تبھی اس پر پیسے خرچ کرنے پر راضی ہوں گے۔
یہ سوال بھی اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کو عام ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ اس حوالے سے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم انتظار کریں کہ دنیا بھر میں الیکٹرک کاروں کی قیمتیں کب دوسری کاروں کے ساتھ برابر ہو جاتی ہیں۔ اس میں چار سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ جب ہر کوئی انھیں اپنا لے گا تو ہم بھی اپنا لیں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہم لوگوں کو جلد یہ سمجھا دیں کہ اس گاڑی کے معاشی فائدے بہت زیادہ ہیں۔
اس بنیاد پر تو یہ گاڑیاں کبھی مشہور نہیں ہوں گی کہ یہ ماحول کو صاف کرتی ہیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی یہ ترجیح نہیں ہے۔ اس میں دلچسپی تبھی لی جائے گی اگر لوگوں کو پتا چلے گا کہ اس سے ان کے پیسے بچیں گے۔ حکومتی سطح پر ایسی سکیمز ہونی چاہیے، جیسے انگلینڈ میں ایک کمپنی نے گاڑیوں کی فروخت پر اس کی بیٹری آسان اقساط میں دیں تا کہ لوگ جو پیسے پیٹرول پر بچائیں وہ قسط کی مد میں ادا کر سکیں۔
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں بنانا زیادہ آسان ہو گا کیونکہ اس میں موونگ پارٹس 30 کے قریب ہیں اور دوسری کاروں میں یہ 200 یا اس سے زیادہ ہوتے ہیں۔ پیچیدگی اس کے سافٹ ویئر، بیٹریوں اور موٹر کنٹرول یونٹس میں ہے کیونکہ یہی اس کا انجن ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کو پاکستان میں عام ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ جب کوئی ایک سال بعد اس الیکٹرک کار کو اپنے کسی دوست کے پاس دیکھے گا اور اس کی کارکردگی سے متاثر ہوگا تبھی اسے خریدے گا۔
بیٹر کے زوردار شارٹ نےایمپائر کے منہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل…
پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج رکوانے کے لیے پس پردہ ملاقاتیں جاری ہیں۔سینیئر صحافی انصار…
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…
معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…
علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…