جمال بھائی ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے کچھ رقم بچا کر الماری کے ایک کونے میں رکھتے تھے اور ان کی بیوی نے بھی اچھی خاصی رقم کی ایک کمیٹی ڈالی ہوئی تھی۔ جس دن بھابھی کی کمیٹی نکلی تو سارا گھر خوشی سے جھوم اُٹھا کیوکہ جمال بھائی کی جمع پونجی اور کمیٹی سے ملنے والی رقم سے اب ایک اچھی سیکنڈ ہینڈ کارخریدی جاسکتی تھی۔ کچھ دن کی محنت، آن لائن ریسرچ اور بازار کا چکر لگانے کے بعد اچھی کنڈیشن میں معمولی استعمال شدہ ایک گاڑی گھر کے باہر پورے محلے کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھی۔
جمال بھائی نے گاڑی تو خرید لی لیکن اب اس کا خیال کس طرح رکھنا ہے یہ فکر جمال بھائی کو ستانے لگی۔ گاڑی خریدنے میں ڈینٹر اور مکینک دوستوں نے خصوصی تعاون کیا تھا لیکن اب سلیم بھائی ان دونوں پر مزید اعتماد کرنے سے کچھ گھبرا رہے تھے۔ دوست احباب نے بھی مکینک حضرات کی جانب سے گاڑی کا اصل سامان نکال کر دو نمبر سامان لگانے جیسی کہانیاں سُنا سُنا کر انہیں خوب خوفزدہ کردیا تھا۔
یہ فرضی کہانی کسی مخصوص سلیم یا کلیم بھائی کی نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں ہر متوسط گھرانے کی داستان ہے۔ اوسط آمدن والے گھرانوں کے لیے گاڑی خریدنا ایک خواب ہی ہوتا ہے اور غریب تو بہرحال ایسا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ بہت سے گھرانوں میں سارے بھائی مل کر ایک کار خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں اور پھر محنت کا پھل ایک دن گاڑی کی صورت میں مل بھی جاتا ہے۔ عام طور پر پاکستان میں لوگ بینک سے لیز شدہ گاڑی لینے سے گھبراتے ہیں اور اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں جن پر باقاعدہ بحث کی جاسکتی ہے۔ بہت سے گھرانے اکثر کسی خاص موقع یا کسی تقریب میں جانے کے لیے ہی اپنی گاڑی نکالتے ہیں۔ اس کی 2 وجوہات ہیں، ایک پیٹرول کا خرچہ کیونکہ سی این جی اب کم دستیاب نہیں ہوتی اور دوسرا یہ کہ گاڑی جتنا چلے گی اتنا ہی کام نکالے گی۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ کار کی دیکھ بھال کرنا تو اس شخص کا بھی مسئلہ ہے جو روزانہ گاڑی چلانے استعمال کرتا ہے لیکن گاڑی کی روزانہ بدلتی کیفیت سے پریشان بھی رہتا ہے۔ یہاں پر بدلتی کیفیت سے مراد یہ ہے کہ جیسے جیسے گاڑی چلتی ہے اس کے مختلف پرزے آواز کرنے لگتے ہیں یعنی پرزے پرانے ہوکر تبدیلی یا مرمت کا خرچہ مانگتے ہیں۔ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں دنیا بھر میں دستیاب ماڈل کا سب سے بنیادی یعنی عام ورژن ہوتا ہے یعنی ان میں بہت سے ایسے فیچرز نہیں ہوتے جو کہ دوسرے ممالک میں موجود بالکل ویسے ہی ماڈل میں مل جاتے ہیں۔ چلیں ہم اس بحث کو بھی یہیں چھوڑتے ہیں۔ گاڑی خرید تو لی ہے اب اس کی دیکھ بھال کیسے کریں؟ اگر آپ بھی اسی مشکل سے گزر رہے ہیں تو ہماری گائیڈ لائن کو آخر تک پڑ لیں، ہمیں امید ہے کہ آپکو فائدہ ہوگا۔
اگر زیرو میٹرنئی گاڑی کو احتیاط کے ساتھ چلایا جائے تو تقریباً ایک لاکھ کلومیٹر یا 3 سے 5 سال تک تو یہ گاڑی کوئی بڑا کام نہیں نکلتی۔ نئی گاڑی کے نخرے بھی کم اٹھانے پڑتے ہیں اور اسکے غیر ضروری چیک اپ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ابتدائی 25 سے 30 ہزار کلومیٹر تو انجن آئل بھی کار ڈیلر شپ سے مفت تبدیل ہوتا ہے۔
جیسے جیسے گاڑی پرانی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسےاس کے نکلنے والے کام کی نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ پرانی گاڑی کی دیکھ بھال بھی اس لحاظ سے زیادہ ضروری ہے۔ گاڑی چاہے نئی ہو یا پرانی اس کا انجن آئل مقررہ وقت پر ضرور بدلوانا چاہیے۔ اب ہم آجاتے ہیں گاڑی کی عمر کے حساب سے نکلنے والے معمول کے کاموں کی طرف۔ پرانی گاڑیوں میں ٹائمنگ چین 80 ہزار سے ایک لاکھ کلومیٹر کے درمیان بدلوانا ہوتی تھی البتہ نئی گاڑیوں میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
گاڑی کے ٹائر عمومی طور پر 50 ہزار سے 60 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بدلوا لینے چاہئیں۔ اگر گاڑی کم استعمال ہوتی ہے لیکن ٹائر 5 سال مکمل کرچکے ہیں تو سمجھ جائیں کہ تبدیلی کا وقت ہوچکا ہے۔ گاڑی ٹائر کے اوپر وہ تاریخ درج ہوتی ہے جس سال وہ ٹائر فیکٹری سے تیار ہوا تھا۔ پرانا ٹائر جو بظاہر چاہے بہت اچھی حالت میں نظر آئے لیکن ایکسپائر ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس وجہ سے گاڑی الٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائر اگر کسی جگہ سے پھول جائے یا اس میں کوئی بڑا کٹ لگ جائے تو وہ مزید استعمال کے قابل نہیں رہتا ہے۔
ٹائر کا جو حصہ سڑک پر چلتا ہے وہ اگراس سائیڈ یا درمیان سے گھسا ہوا محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹائر خراب ہوچکا ہے اور اسے بدلوانا بہتر ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کوشش کریں کہ گاڑی کے چاروں ٹائر ایک ساتھ ہی تبدیل کروائیں تاکہ وہ ایک ساتھ ہی خراب ہوں۔ 20 ہزار کلومیٹر کے بعد اگلے ٹائر پیچھے اور پچھلے ٹائر آگے منتقل کر لینا مناسب رہتا ہے۔
گاڑی کی پائیداری کا سب سے اہم حصہ انجن کولنگ سسٹم ہے اور کولنگ سسٹم میں سب سے اہم شے ریڈی ایٹر ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ گاڑی کے انجن کی زیادہ تک خرابیوں کی وجہ کولنگ سسٹم کی خرابی ہی بنتی ہے۔ اس لیے اپنی گاڑی کے کولنگ سسٹم پر ہمیشہ نظر رکھیں۔ ریڈی ایٹر میں موجود کولنٹ طویل عرصے تک قابلِ استعمال رہتا ہے۔ کبھی بھی گرم انجن میں ریڈی ایٹر کا ڈھکن مت کھولیں کیونکہ پانی اچھل کر آپ کے چہرے یا ہاتھ کو زخمی کرسکتا ہے۔ کولنٹ کم ہونے کی صورت میں انجن کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور ڈیش بورڈ پر اس کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ کبھی بھی مخصوص سطح سے زیادہ ہیٹ کا کانٹا اوپر جانے کو نظرانداز مت کریں۔
نئے ماڈل کی تمام گاڑیوں میں اب مختلف قسم کے سینسر لگائے جاتے ہیں۔ سینسرز انجن میں کسی بھی خرابی کی صورت میں ڈیش بورڈ پر ٹمٹما نے لگتے ہیں۔ ڈیش بورڈ پر کسی بھی نشان کے اچانک ٹمٹمانے یا جل کر بجھنےکو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پیلے رنگ کا نشان انجن چیک لائٹ کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ آپکی گاڑی کا انجن کسی مشکل کا شکار ہے۔ انجن چیک لائٹ اس وقت بھی جل اٹھتی ہے جب ناقص پیٹرول کی وجہ سے آپکی گاڑی مس فائر کرے۔ یعنی جھٹکا لے یا مسنگ کرے۔ انجن چیک لائٹ کو مکینک گاڑی سے کمپیوٹر منسلک کرکے ایرر کوڈ کے ذریعے پڑھ سکتا ہے اور پھر متعلقہ خرابی کو فوری دُور کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری بتائی ہوئی گائیڈ لائنز کو یاد رکھ کر اور ان پر عمل کر کے آپ اپنی گاڑی کو لمبے عرصے تک کرابی سے بچا سکیں گے۔
بیٹر کے زوردار شارٹ نےایمپائر کے منہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل…
پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج رکوانے کے لیے پس پردہ ملاقاتیں جاری ہیں۔سینیئر صحافی انصار…
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…
معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…
علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…