کپاس کی پیداوار میں کمی، پاکستان کا عالمی رینکنگ ساتواں نمبر
کراچی:ـ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں شدید کمی اور کاٹن پراڈکٹس کی بڑھتی ہوئی برآمدات کے تناظر میں مقامی ٹیکسٹائل سیکٹر کی جانب سے 30 لاکھ سے زائد روئی کی گانٹھیں درآمد کرنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق، ملک بھر میں کچے علاقوں میں قائم جننگ فیکٹریوں کی غیر دستاویزی فروخت اور کاشت کاروں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق بروقت معلومات کی عدم فراہمی کے باعث کپاس کی پیداوار میں کمی آئی ہے، جس سے معیشت کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان کی عالمی پیداواری فہرست میں کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث اب ساتویں نمبر پر آ گیا ہے جب کہ ماضی میں یہ چوتھے نمبر پر تھا۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 15 ستمبر 2024 تک جننگ فیکٹریوں میں مجموعی طور پر 14 لاکھ 34 ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی، جو کہ گزشتہ سال کے اسی دورانیے کی نسبت 64 فیصد کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں پھٹی کی ترسیل میں 65 فیصد اور سندھ کی جننگ فیکٹریوں میں 63 فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس عرصے کے دوران ٹیکسٹائل ملز نے گزشتہ سال کی 33 لاکھ 12 ہزار گانٹھوں کے مقابلے میں صرف 13 لاکھ 50 ہزار روئی کی گانٹھیں خریدیں، جبکہ رواں سال اب تک صرف 400 گانٹھیں برآمد کی گئی ہیں، جو کہ پچھلے سال کی 2 لاکھ 22 ہزار گانٹھوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
مزید برآں، 15 ستمبر 2023 تک ملک بھر میں 614 جننگ فیکٹریاں فعال تھیں، جبکہ رواں سال اب تک صرف 302 جننگ فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے کہا کہ پاکستان کے کاٹن زونز میں موسمی حالات میں بہتری سے کپاس کی فصل اچھی حالت میں ہے اور سفید مکھی سے محفوظ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مزید ایک ماہ تک موسمی حالات سازگار رہنے پر کپاس کی پیداوار میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے حال ہی میں جدید موسمیاتی ریڈارز کی خریداری کی ہے، جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں معلومات میں بہتری کی توقع ہے۔ انہوں نے جننگ فیکٹریوں پر عائد 72 فیصد سیلز ٹیکس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بعض فیکٹریاں غیر دستاویزی روئی کی فروخت کو ترجیح دے رہی ہیں، اور وفاقی حکومت کو سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے اور پاور ٹیرف میں کمی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جننگ سیکٹر سے ریونیو کی وصولی میں اضافہ ہو سکے۔
احسان الحق نے مزید بتایا کہ ایک بین الاقوامی ایجنسی کے مطابق، پاکستان پہلے بھارت، چین، اور امریکا کے بعد چوتھے نمبر پر تھا، لیکن حالیہ برسوں میں برازیل اور آسٹریلیا کے بعد اب ترکی نے چھٹے نمبر پر آ کر پاکستان کو ساتویں نمبر پر دھکیل دیا ہے۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کپاس کی کاشت میں اضافہ کے لیے ضروری اقدامات کریں تاکہ ملکی زرعی اور اقتصادی معیشت کو مضبوط کیا جا سکے۔