وطنِ عزیز پاکستان کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ ہمارے ملک کے بیشتر شعبے قیامِ پاکستان کے وقت سے اب تک مختلف تجربات کا شکار ہیں ان میں سرِ فہرست تعلیم کا شعبہ جتنا حساس ہے اتنا ہی بے ضابطگیوں کا شکار ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی یہ کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیاء میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہو رہا ہے، حکومتی دعووّں کے باوجود پاکستان میں تعلیم کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ڈھائی کروڑ بچے سکول جانے سے قاصر ہیں یہ پاکستان میں بچوں کی آبادی کا نصف حصہ ہے باقی جو بچے سکول جاتے ہیں انکو فراہم کرنےوالی تعلیم بھی کچھ زیادہ معیاری نہیں ہے۔ پنجاب کے بعد سندھ میں تعلیم کی شرح بے شک زیادہ ہے مگر وہاں بھی تعلیم کا معیار تسلی بخش نہیں یے۔
افسوس طلب بات ہے کہ کورونا وائرس کے پیشِ نظر میڈیا، دفاتر، کاروباری مراکز، اور مارکیٹیں ایس او پیز کے تحت کھلی ہوئی ہیں مگر تعلیمی ادارے شروع دن سے ہی بند ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جیسے دوسرے مراکز ایس او ہیز کے تحت کھولے گئے ہیں ویسے ہی تعلیمی اداروں کو بھی کھولے تا کہ معیار تعلیم میں چھ ماہ سے رُکی ہوئی بہتر ی دوبارہ بحال ہو سکے۔
پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ ناقص صحت ہے۔ قیامِ پاکستان سے آج تک پاکستان میں جتنی حکومتیں بنی وہ اب تک انٹرنیشل لیول کا اسپتال نہیں بنا سکیں۔ پاکستان میں شوکت خانم اور آغا خان جیسے انٹرنیشنل لیول کے اسپتالوں کی تعداد ملک میں بہت کم ہے۔
پاکستان میں سرکاری اسپتال تو ہیں مگر وہاں ادویات کی قلت ہے اور سرکاری ڈاکٹر وہ ادویات لکھتے ہیں حو اسپتال سے نہی ملتی۔
سرکاری اسپتالوں میں رش اسقدر ہوتا ہے کہ بیمار شخص اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں پہلے تو ٹیسٹ مشینیں موجود ہی نہیں ہوتی اگر ہوں بھی تو ٹیسٹ کے بعد رزلٹ کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑ جاتا ہے۔ پاکستان کی حکومتیں کو چاہیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے اور جدید اسپتال تعمیر کریں اور انہیں صرف شہروں تک محدود نہ کریں بلکہ انکو دور دراز گاوّں تک پھیلایا جائے تاکہ غریب عوام اس سہولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکے۔
پاکستان کا ایک اور جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ہے بے روزگاری۔ ہر آنے والی نئی حکومت روزگار کے وعدے تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ بہتر روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان ذہنی مریض بن چکے ہیں جن میں اکثریت روزگار کے سلسلہ میں غیر قانونی طریقے سے یورپ کا رُخ کر لیتے ہیں اور وہاں جا کر غیر قانونی حرکات میں ملوث ہو جاتے ہیں جس وجہ سے پاکستان کا نام بین الاقوامی سطح پر بدنام ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جیسے کیسے بھی پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرئے انہیں چھوٹے پیمانے اور آسان شرائط پر قرض جاری کئے جائیں تاکہ یہ ملک میں چھوٹے موٹے کاروبار سے آغاز کریں اور اپنی مخنت اور دماغی صلاحیتوں کو بروِکار لاکر ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔