جو قومیں اپنی خود مختاری، سالمیت اور عزتِ نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتی وہ اقوامِ عالم میں اپنا مقام مضبوط بنانے کی جانب سفر بہت جلدی طے کرتی ہیں ۔ اور جہاں دوسروں پرانحصار، قرضوں کا حصول، مشکل حالات میں غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا عام روش بن جائے وہ قوم کبھی بھی دُنیا میں اپنا مقام نہیں بناسکتی ہے اور نہ ہی دوسری اقوام اسے عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کیونکہ مانگنے والے کی عزت کی بجائے دُنیا میں اپنے پاوّں پر کھڑا ہونا اہم تصور کیا جاتا ہے۔ جو قومیں خود مختاری کی جانب سفر مشکل حالات میں بھی جاری رکھتی ہیں انکی باتوں کو نہ صرف اہمیت دی جاتی ہے بلکہ عالمی فیصلوں میں اسکا کردار بھی بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان ایک اہم اسلامی ملک ہونے کے ساتھ اسلامی دُنیا کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے ۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ سے نامساعد حالات میں بھی اپنا لوہا اقوامِ عالم کو منوایا ہے لیکن پاکستان کے بارے ایک عالمی تاثر موجود ہے کہ ہم غیر یقینی کا شکار قوم ہیں اسکی وجہ یہی رہی ہے کہ ہم طویلالمعیاد پالیسی کی بجائے ہمیشہ مختصر المدتی پالیسی اپنانا پسند کرتے ہیں ہم تین سے پانچ سال کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں اور اسی کو کامیابی سمجھتے ہیں جبکہ اس حقیقت سے چشم پوشی ہمارا خاصہ رہا ہے کہ ہم نے مستقل مزاجی کو اپنے مزاج کا حصہ نہیں بنایا۔ کھیل، سیاست، داخلی امور ، خارجی امور یا سفارتکاری ہم نے کبھی انہیں ماسٹر پلان کا حصہ نہیں بنایا جسکی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔
گوسفارتکاری ایک انتہائی حساس اور نازک کام ہے اور یہ کام تاریخ کو پسِ پشت ڈالنے والوں کے بس کی بات نہیں چنانچہ اچھے سفاتکار اور شاندار سفارتکاری کے لیے تاریخ کا علم جسم میں خون کی طرح اہم ہوتا ہے جسے صرف جذبات سے چلانا ناممکن عمل ہے۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق پاکستان اسوقت دوست ممالک کی کشتی کے ایسے بھنور میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنا محال نظر آرہا ہے۔
ایران ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور ہمارے ملک کی 20فیصد آبادی اہلِ تشیع پربھی مشتمل ہے اور یہ پاکستان کو تسلیم کرنے والا سب سے پہلا ملک بھی ہے۔
تُرک ہمارے خون میں شامل ہیں یہ ہزارسال برصغیر میں آتے اور جاتے رہے ہیں حتیٰ کہ ہماری قومی زبان کا لفظ اُردو بھی تُرک زبان سے ہی لیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ ترکی دُنیا کے ان تین ممالک میں بھی شامل ہے جن میں آج بھی پاکستان کی تھوڑی بہت عزت ہے ۔ ہم ملائیشیااور مہاتیر محمد سے بھی بہت متاثر ہیں جبکہ سعودی عرب ہمارا اہم ترین دوست ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور مستقل مدد گار بھی ۔
سعودی عرب 1947سے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرتا رہا۔ ہم 2018میں دیوالیہ ہونے کے قریب تھے مگر سعودی عرب نے ہمیں سہارا دیا۔ یہی وہ دنیا کا واحد ملک تھا جس نے ہمیں 3ارب ڈالر قرض بھی دیا اور ساڑھے نو ارب روپے کا اُدھار تیل دینے کا وعدہ بھی کیا۔
سعودی عرب میں 25لاکھ پاکستانی بھی کام کرتے ہیں یہ لوگ ہر ماہ ہمیں سب سے زیادہ فارن ایکسچینج بھجواتے ہیں لہذا سعودی عرب صرف ہمارا دوست ہی نہیں بلکہ ہماری مجبوری بھی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اس مجبوری کی وجہ سے دوسرے دوست ممالک ہم سے ناراض ہیں۔
پاکستان ان چاروں کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔
ہمیں چاہیے تھا کہا کہ ہم مخالفت اور عداوت کے اس ماحول میں اپنا مفاد دیکھتے، ہم سعودی عرب میں موجود 25لاکھ ورکرز پر توجہ دیتے اسکے ساتھ ساتھ سعودی عرب سے ملنے والے ادھارے تیل اور 3ارب ڈالر کو نظر میں رکھتے لیکن ہم نے سفارتی حماقتوں سے سب گنوا دیا۔ جسکا نقصان صرف پاکستان کو ہوگا وہ چاہے معاشی لخاظ سے ہو یا سفارتی لخاظ سے۔