ہمارے سامنے بہت سے ایسے واقعات پیش آ تے ہیں جن کو دیکھ کر ہم جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے اور ان جذبات کی رو میں بہہ کر کچھ ایسا کر جاتے ہیں کہ جسکا فوری طور پر تو ہمیں احساس نہیں ہوتا لیکن کچھ ہی وقت کے بعد ہمیں انکا احساس ضرورہوتا ہے کہ ہم نے بہت کچھ غلط کیا، حالانکہ جب ہمارے جذبات جوبن پر ہوتے ہیں تو ہمار ے اندر کی آگ ہماری سوچ اور فہم پر حاوی ہو جا تی ہے اور اس وقت ہمارے افعال، ہماری عقل اور فہم کی بجائے ہمارے جذبات کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے جذبات میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ ہم فوری طور پر ان میں بہہ کر کسی بھی چیز پر ردِعمل دہ دیتے ہیں کیا یہ چیز ہمارے جینز میں شامل ہے؟ یا اسکی کوئی اور وجہ ہے؟
جب بھی ہم کسی ایسی صورتحال میں داخل ہوتے ہیں تو ہماری دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہم فوری طور پر جوابی کاروائی کریں جیسے بھی ہو اپنے مدِ مقابل کو اپنی قوت کا احساس دلائیں اور اس پر باور کریں کہ ہم اس سے کسی بھی طرح کم نہیں،اگر ہم اس میں کامیا ب ہو جائیں تو فوری طور پر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا دل خوش ہو گیا ہے اور ہمارا بدلہ پورا ہو گیا ہے اور ہمارے جذبات میں ٹھہراؤ آگیاتاہم شروع تعلیمات اس حوالہ سے بالکل مختلف ہیں۔ ہمارے مذہب اسلام نے جذبات کی رو میں بہہ کر ایسے کسی بھی فیصلہ سے منع کیا ہے، تمام ایسے مواقع پر جہاں انسان عام طور پر بے قابو ہو جاتا ہے شریعت نے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے، عقل و ہوش سے کام کرنے اور واقعات سے الگ ہو کر واقعات کے بارے سوچنے اور غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے جس کو اسلامک اصطلاح میں صبر کا نام دیا گیا ہے۔
لفظ صبر مختلف معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اسکا ایک معنی یہ بھی ہے کہ بُرائی کرنے والوں کی بُرائی اور بدخواہ لوگوں کے قصور کو معاف کیا جائے یعنی حاسدین اور دشمنوں کے تکلیف دہ کاموں پر غصہ اور اشتعال کی بجائے تحمل، بردباری،اور برداشت سے کام لیا جائے۔
جب ہم صبر کا مظاہر ہ نہیں کرتے تو وہ ڈپریشن بن جاتا ہے ہم ایسی منفی سوچوں کو اپنے اُوپر حاو ی کرکے اپنی تمام تر انرجی اس میں لگا دیتے ہیں جس سے ڈپریشن کی شرح ہماری معاشرے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ افراد اور ادارئے جو اس مسئلے پر تحقیق کرتے ہیں وہ اس کے روافزوں تناسب کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے کہ گہرے ڈپریشن میں انسان میں خود کشی کا رجحان پیدا ہوتا اور تیزی سے بڑھتا ہے، ظاہر ہے یہ پریشانی اور خوف کی بات ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ ڈپریشن کی اس کیفیت میں انسان اپنے لیے ہی نہیں دوسروں کے لیے بھی ضرررساں ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار ہونے والے بعض افراد خود کشی کی بجائے، یا خود کشی سے پہلے آس پاس کے لوگوں کو نقصان پہنچانے کی ذہنی روش کا شکار ہوتے ہیں۔عام طور پر ہم سنتے تھے کہ خود کشی کے واقعات یورپ اور امریکہ میں ہی ہوتے ہیں اور یہ حقیقت بھی تھی تاہم اب ہمارے ملک میں بھی خود کشی کی شرح بہت حد تک بڑھ چکی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بعض افراد نے خود کشی سے قبل کئی لوگوں کی جانیں لیں، تحقیقاتی رپورٹس نے حقیقت کا انکشاف کیاکہ یہ عمل ایکیوٹ ڈپریشن میں کیا گیا تھا۔ خود کو نقصان پہنچانے اور خود کشی کے واقعات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ماہرین نے عندیہ دیا ہے کہ اگر یہ اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو یورپ اور امریکہ کی بڑی آبادی آئندہ چند سالوں میں اسکا شکار ہو سکتی ہے۔
یہاں ایک پہلو جو حیران کن ہے اور جسے ہم نظر انداز بھی نہیں کر سکتے وہ یہ کہ ڈپریشن کا فروغ سماج کے پسماندہ اوسط او راعلیٰ تینوں طبقات میں ہو رہا ہے۔ تعلیم یافتہ اور خوشحال زندگی گزارنے والے افراد بھی اس مرض کا شکار ہو رہیں، بلکہ ان میں یہ تناسب پسماندہ طبقہ کہ مقابلے میں زیادہ ہے۔ اعلیٰ طبقے کے افراد جنھیں زندگی کی تمام سہولیتں اور آسائشیں میسر ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ علاج کی بھی ہر ممکن آسانی فراہم ہے، وہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے ڈپریشن کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں جہاں اِنھیں خودکشی کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے میں ذاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچا ہو ں کہ ڈپریشن کا براہ راست تعلق صبر کے ساتھ ہے اگر ہم کسی بھی عمل میں جو ہمیں اپنی منشا کے مطابق ہوتا نظر نہیں آتا ہم اسکو اپنے ذہن پر سوار کر لیتے ہیں اور اندر ہی اندر اپنے ڈپریشن میں اضافہ کر لیتے ہیں وہیں موجودہ دور میں ہمارے ڈپریشن کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ بغیر کسی تربیت اور مینوئل کے ہمیں یہ طاقتور ہتھیار تھما دیا گیا جس پر کسی طر ح کی کوئی ریگو لیشن فی الحال موجو د نہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق حالیہ پانچ سالوں میں ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا کو کہا گیا۔ تحقیق کے مطابق 80 فیصد ڈپریشن کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا کے بغیر تحقیق اور کسی بھی ایشوکے ساتھ وابستگی کو نظر انداز کرتے ہوئے جو طوفان بد تمیزی مچا ہوا ہے اسکا اگر فوری تدارک نہ کیا گیا تو یہ ہمارے مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے مزیدمسائل کو بڑھائے گا۔