جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ
بقلم: کاشف شہزاد
وطنِ عزیز قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک دشمنوں کی آنکھوں میں بُری طرح کھٹک رہا ہے, دشمن ہر لحاظ سے اسے نقصان پہنچانے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ماضی سے لیکر اب تک ملک کے بعض حصّوں میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں دشمن اور ان کے زرِ خرید غلام ملوث ہیں اور وہ ہمیشہ اس صوبے کو ٹارگٹ کرتے ہیں جہاں حکومت کی توجہ ہمیشہ سے ہی کم رہی ہے۔ بلوچستان میرے ملک کا پسماندہ صوبہ ہے جہاں محروم طبقے کی پسماندگی کو جواز بنا کر دشمن اور ُانکے آلہ کار لوگوں کے ذہنوں میں ملک کے خلاف زہر گھولنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ دہشتگرد سرگرمیوں میں بھی یہ دشمن اور اُن جیسے پسماندہ و کنند ذہن لوگ ملوث ہیں۔ اصل میں ہمارے ملک میں مذہب,. قومیت، لسانیت، سیاست اور انتہا پسندی ہر لحاظ سے ہماری رگوں میں سرایت کر چکی ہے اور دہشت گردی اسکی انتہائی صورت ہے, اس عصبیت نے ملک میں دہشت گرد پیدا کئے ہی، جس کا مشاہدہ ہر شخص ملک کے کونے کونے میں کر سکتا ہے۔ درہ بولان کے علاقے میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کا حملہ بھی عصبیت کی انتہائی صورت ہے جو بلوچستان میں بد امنی کی سنگین صورتحال کا واضح مظہر ہے۔ جس علاقے میں دہشت گردی کا یہ واقعہ ہوا وہ آبادی سے دُور دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے چنانچہ متاثرہ ٹرین تک امدادی دستوں کو پہنچنے میں شدید کوفت کا سامان رہا مگر حتیٰ الامکان احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیکورٹی فورسز نے آپریشن کو منتطقی انجام تک پہنچایا, فورسز نے کسی عجلت یا جلدی بازی کی بجائے بڑی مہارت حکمت سے اس آپریشن کو کامیاب بنایا۔ ایک پریس کانفرنس کے مطابق آپریشن شروع ہونے سے پہلے دہشگردوں نے اکیس افراد کو شہید کیا اس کے برعکس تمام 33 دہشگرد ہلاک ہو گئے اور بقیہ تمام مسافروں کو دہشگردوں سے بازیاب کروا لیا گیا۔ ماضی میں بھی بلوچستان کے اس علاقے میں ریلوے ٹریک پر دور سے راکٹوں یا ریموٹ کنٹرولڈ بموں کے ذریعے حملے کئے جا چکے ہیں مگر یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار واقعہ ہوا کہ ایک مسافر ٹرین کو یرغمال بنایا گیا۔ دہشتگردوں نے انسانی جانوں کو ڈھال بناتے ہوئے انہیں تین مقامات پر یرغمال بنا رکھا تھا۔ ٹرین ہائی جیکنگ کے اس واقعہ کے دوران یرغمال کئے گے لوگوں کے متعلق ان دہشتگردوں کو افغانستان میں موجود انکے ماسٹر مائند سے مسلسل ہدایات ملتی رہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال میں ملکی دہشت گردی کے تقریباٙٙ 42 فیصد واقعات بلوچستان میں ہوئے جن میں 135 سیکورٹی جوانوں سمیت 185 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ بیرونی پشت پناہی اور فنڈنگ کے بغیر ایسی منظم دہشت گردی کی وارداتیں ممکن نہیں ہو سکتیں, جو بظاہر تو افغانستان سے سپورٹ ہو رہی ہیں مگر انکے محرکات اور ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کی دہشتگردی ایک کثیر جہتی مسئلہ ہے جسکا حل اور مقابلہ قوم و ملت نے ملکر کرنا ہے۔ امن و آمان کو درپیش ہر خطرے کی اپنی نوعیت اور اس سے نمٹنے کے لئے خصوصی حکمتِ عملی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں ایسے منظم دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے اسکی نرسریوں پر گہرا ہاتھ ڈالنا ہوگا جہاں یہ کُنند ذہن لوگ تیار ہو رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے سیاسی و عسکری قیادت کو جامع حکمتِ عملی اپنانی ہوگی تاکہ ملک دشمن عناصر کے عزائم خاک میں ملائے جا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ متفقہ حکمتِ عملی کے تحت افغان حکومت کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ اپنی سرزمین دہشتگردی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے اور ان کارروائیوں میں ملوث دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کرئے۔