حیدرآباد کے معروف سندھی شاعر اور ادیب ڈاکٹر آکاش انصاری کے قتل کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ تفتیشی حکام کے مطابق مقتول کے زیر حراست بیٹے لطیف آکاش نے اپنے والد کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ تفتیشی افسر کے مطابق لطیف آکاش نے والد کو قتل کرنے کے بعد کمرے میں آگ لگائی تاکہ واقعہ کو حادثہ ظاہر کیا جا سکے۔ پولیس نے شواہد اکھٹے کر لیے ہیں، جن کے مطابق ڈاکٹر آکاش کی موت حادثاتی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی قتل کی واردات تھی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزم لطیف آکاش نشے کا عادی تھا اور اکثر اپنے والد سے رقم کا تقاضا کرتا رہتا تھا۔ گزشتہ سال ڈاکٹر آکاش نے اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ لطیف 38 لاکھ روپے لے کر فرار ہو گیا تھا۔ بعد ازاں باپ بیٹے کے درمیان صلح ہو گئی تھی، لیکن کشیدگی برقرار رہی۔
پولیس نے لاش کا پوسٹ مارٹم اور ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ مکمل کر لیا ہے، اور اب فارنزک رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ڈاکٹر آکاش آگ لگنے کے باعث جھلس کر جاں بحق ہوئے، لیکن تحقیقات سے معلوم ہوا کہ انہیں قتل کرنے کے بعد لاش کو آگ لگائی گئی تاکہ شواہد مٹائے جا سکیں۔
ڈاکٹر آکاش انصاری کے قتل پر سندھی ادبی حلقوں اور شاعروں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وہ سندھی ادب کا ایک بڑا نام تھے اور ان کی ناگہانی موت کو ادبی دنیا کا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ نہ صرف ایک والد اور بیٹے کے رشتے پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ اور نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔