26ویں ترمیم، چیف جسٹس نے فیصلہ آئینی کمیٹی کے سپرد کیا
اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف متعدد درخواستوں کی سماعت کرنے والی فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے گیند آئینی بنچز کی کمیٹی کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی اور جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 3رکنی کمیٹی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے آئینی بینچ کے کل ارکان کا فیصلہ کرے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کمیٹی خود اس ترمیم کی تخلیق ہے جسے چیلنج کیا جارہا ہے۔ حکومت اب تک آئینی بنچ خصوصاً اس کے سربراہ جسٹس امین الدین سے مکمل طور پر مطمئن ہے۔
یہ بحث جاری ہے کہ کیا چیف جسٹس آفریدی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے سکتے تھے؟ جسٹس سید منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کو اپنے حالیہ خط میں کہا ہے آئین میں نئے شامل کردہ آرٹیکل 191A کی شق (3) بیان کردہ معاملات کی آئینی بنچ کے سوا سپریم کورٹ کے کسی بھی بنچ میں سماعت پر پابندی عائد کرتی ہے۔
لیکن یہ شق سپریم کورٹ کے فل کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر درخواستوں سمیت کسی بھی معاملے کی سماعت سے نہیں روکتی ہے۔ فل کورٹ اور عدالت کے بنچوں کے درمیان فرق آئین کے آرٹیکل 203J(2)(c) اور (d) میں اچھی طرح سے قائم اور واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
جسٹس شاہ نے چیف جسٹس آفریدی کو لکھے گئے اپنے خط میں مزید کہا کہ تاہم اگر آپ کو اس آئینی پوزیشن کے بارے میں کوئی شک ہے تو سپریم کورٹ کی پہلے عدالتی طور پر اس کا بھی فیصلہ بھی کیا جائے۔
انہوں نے لکھا معروف وکلا نے چیف جسٹس آفریدی کو فل کورٹ کی تشکیل کے لیے خط لکھ دیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدور حامد خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر صلاح الدین احمد، خواجہ احمد حسین اور زینب جنجوعہ نے چیف جسٹس آفریدی کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے پیش کیا جائے۔
سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا ہے کہ ’’ 26ویں آئینی ترمیم” نے عدلیہ کے بنیادی اصولوں کو دوبارہ