سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس سینیٹر طلال چوہدری کی زیر صدارت ہوا، جس میں وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے پی آئی اے کی نجکاری پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کے حوالے سے مختلف مسائل پر گفتگو کی گئی، جن میں خریداروں کی عدم دلچسپی اور بینچ مارک سے کہیں کم بولیاں آنا شامل تھے۔
وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے کمیٹی کو بتایا کہ جب وہ وزیربننے کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کا جائزہ لے رہے تھے، تو اس وقت پی آئی اے کے مجموعی نقصانات تقریباً 830 ارب روپے تھے، اور نجکاری کے عمل کے دوران پی آئی اے کا خسارہ 45 ارب روپے تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی آئی اے کی مالی حالت اس قدر خراب تھی کہ نجکاری کے عمل کو کامیاب بنانا ایک چیلنج تھا۔
عبدالعلیم خان نے کمیٹی کو بتایا کہ خریداروں کی عدم دلچسپی اور کم بولیاں آنے کی وجہ پی آئی اے کے مالی خسارے، کاروباری ماڈل کی کمزوری، اور ادارے کی موجودہ کارکردگی ہو سکتی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے حکومت نے کئی بار بولیاں طلب کیں، مگر اس میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں مل سکی، جس کی وجہ سے اس عمل کو آگے بڑھانا مشکل ہو گیا ہے۔
کمیٹی میں اس بات پر بھی بات کی گئی کہ نجکاری کے اس عمل میں حکومت کو پی آئی اے کی مالی حالت کی درست تشخیص اور اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ خریداروں کو پی آئی اے میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، نجکاری کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ غیر ملکی یا مقامی سرمایہ کاروں کے لیے پی آئی اے کی نجکاری ایک منافع بخش اور محفوظ سرمایہ کاری بن سکے۔
وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ جب پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولیاں طلب کی گئیں، تو مختلف پارٹیز نے اس میں دلچسپی ظاہر کی۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی وضاحت دی کہ ایک مرتبہ نجکاری کا عمل شروع ہونے کے بعد اس میں تبدیلیاں نہیں کی جا سکتی ہیں، اور اس عمل کو اسی طرح آگے بڑھانا ضروری ہوتا ہے۔
عبدالعلیم خان نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے دوبارہ بولیاں طلب کی جائیں گی اور اس کے لیے تیاریوں کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف خود پی آئی اے کی دوبارہ نجکاری پر توجہ دے رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے حکومت بھرپور اقدامات کر رہی ہے تاکہ ادارے کی مالی مشکلات سے نجات حاصل کی جا سکے۔
وفاقی وزیر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا مقصد صرف ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانا نہیں بلکہ اس کے ذریعے قومی خزانے پر پڑنے والے مالی بوجھ کو بھی کم کرنا ہے۔ ان کے مطابق، پی آئی اے کی موجودہ حالت اور اس کے بھاری نقصانات کے پیش نظر نجکاری ایک ناگزیر قدم ہے تاکہ ادارہ منافع بخش اور مستحکم ہو سکے۔
وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا کہ ایئر انڈیا کی نجکاری بھی پانچ بار ناکام ہوئی تھی اور اس کے بعد ہی جا کر وہ کامیاب ہوئی تھی۔ ان کے مطابق اگر پی آئی اے کی نجکاری کرنی ہے تو حکومت کو "بڑا دل” دکھانا پڑے گا۔ علیم خان نے اس بات پر زور دیا کہ پی آئی اے میں منافع بنانے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، اور وہ آج بھی یقین رکھتے ہیں کہ پی آئی اے ایک منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے پاس کئی منافع بخش روٹس ہیں، اور اگر ان روٹس کا صحیح استعمال کیا جائے تو ادارہ مالی طور پر مستحکم ہو سکتا ہے۔
علیم خان نے یہ بھی بتایا کہ ایف بی آر سے وہ یہ درخواست کر چکے ہیں کہ پی آئی اے کے نئے طیاروں کی خریداری پر جی ایس ٹی (مالیاتی ٹیکس) ہٹایا جائے، کیونکہ پوری دنیا میں طیاروں پر جی ایس ٹی نہیں لیا جاتا۔ تاہم، ان کے مطابق ایف بی آر اپنے مخصوص "محور” کے اندر رہتے ہوئے اس مسئلے کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ حکومت کو نجکاری سے پہلے سرکاری اداروں کو تمام مالی خساروں سے نجات دینی چاہیے تاکہ ان اداروں کی مالی حالت بہتر ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ فوراً ہونا چاہیے، اور اس عمل میں دوسری وزارتوں کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ نجکاری کے عمل کو کامیاب بنایا جا سکے۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بھی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سرمایہ کاروں نے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے 26 ارب روپے کا ٹیکس معاف کرنے اور 10 ارب روپے کی فنانسنگ کی ادائیگی اپنے ذمے لینے کی شرط رکھی تھی، جس پر مزید غور و خوض جاری ہے۔