سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے آج مختلف مقدمات کی سماعت کی، جن میں ایک کیس الیکشن میں 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کو کامیاب قرار دینے کی درخواست سے متعلق تھا۔
سماعت کے دوران، جسٹس محمد مظہر نے درخواست پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ "کس آئینی شق کے تحت امیدوار کے لیے الیکشن میں 50 فیصد ووٹ لینا لازمی قرار دیا جائے؟” انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن میں کامیاب امیدوار کا تعین ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے ہوتا ہے۔ اگر ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرتے اور ووٹ نہیں ڈالتے تو اس کا کیا کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال انہوں نے درخواست گزار سے پوچھا تھا۔
اس پر جسٹس عائشہ ملک نے بھی درخواست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "پہلے یہ وضاحت کی جائے کہ درخواست گزار کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، اور آئین کے کس آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہو رہی ہے؟” ان کا کہنا تھا کہ درخواست میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ درخواست گزار کو کس طرح کا نقصان پہنچا ہے، اور کیا واقعی کوئی آئینی حق متاثر ہو رہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "اگر نیا قانون بنوانا ہے تو یہ سپریم کورٹ کا اختیار نہیں ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات میں عدالت کو نئے قوانین بنانے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ یہ کام پارلیمنٹ کا ہے
اس پر درخواست گزار اکرم نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ” تمام بنیادی حقوق اس درخواست سے جڑے ہوئے ہیں۔” اکرم کا کہنا تھا کہ درخواست میں اٹھائے گئے سوالات کا تعلق براہ راست شہریوں کے حقوق سے ہے، اور یہ کہ "ہماری زندگی کا فیصلہ پارلیمنٹ کرتی ہے۔
دوران سماعت، جسٹس امین الدین خان نے درخواست کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ "زندگی کا فیصلہ پارلیمنٹ نہیں کرتی۔” ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہی وہ ادارہ ہے جو عوام کے مسائل اور ان کے حقوق کے بارے میں فیصلے کرتا ہے، نہ کہ عدالت۔
جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقع پر مزید کہا کہ "تمام لوگوں کو ووٹ کا حق ہے، لیکن پولنگ کے دن بہت سے لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں اور ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔ اگر ووٹرز ووٹ نہ ڈالیں تو یہ ان کی اپنی کمزوری ہے۔” ان کا یہ کہنا تھا کہ انتخابات میں کامیاب امیدوار کا فیصلہ اس بات سے ہوتا ہے کہ کتنے لوگ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے درخواست گزار محمد اکرم سے استفسار کیا کہ "کیا آپ نے فروری 2024 کے الیکشن میں ووٹ کاسٹ کیا؟” جس پر درخواست گزار نے کہا کہ "میں نے الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔” اس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "آپ پھر آئین کی توہین کر رہے ہیں، کیونکہ آئین میں ہر شہری کو ووٹ ڈالنے کا حق اور فرض دیا گیا ہے۔”
دوران سماعت، آئینی بینچ نے درخواست گزار پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا۔ اس پر درخواست گزار نے عدالت سے تکرار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ "جرمانہ کم از کم 100 ارب روپے کریں تاکہ ملک کا قرضہ کم ہو۔” جس پر بینچ کے سربراہ، جسٹس امین الدین خان نے جواب دیا کہ "100 ارب کا جرمانہ دینے کی آپ کی حیثیت نہیں۔”
آخرکار، آئینی بینچ نے الیکشن میں 50 فیصد سے زائد ووٹ لینے والے امیدواروں کو کامیاب قرار دینے کی درخواست کو 20 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دیا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا پابند بنانے سے متعلق اپیل خارج کر دی۔
سماعت کے دوران، درخواست گزار مولوی اقبال حیدر ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔ اس کیس میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے لیے پابند کیا جائے۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ "آپ کو عدالتی احاطے میں اجازت دی گئی تھی، اور یہ آپ کے لیے کافی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کو عدالت میں مناسب سہولت فراہم کی جا چکی ہے اور اس معاملے کو مزید سننے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس پر درخواست گزار مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ "یہ معاملہ طے ہو چکا ہے، اور میری درخواست اب غیر موثر ہو چکی ہے۔” اس پر آئینی بینچ نے درخواست غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دی اور کیس کو ختم کر دیا۔
انکم لیوی ٹیکس ایکٹ 2013 کے خلاف 1178 مقدمات کی سماعت ہوئی،
سپریم کورٹ میں انکم لیوی ٹیکس ایکٹ 2013 کے خلاف 1178 مقدمات کی سماعت ہوئی، جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مقدمے کے بہت سے فریقین کو نوٹسز موصول نہیں ہو سکے ہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ مقدمے میں لاہور اور کراچی ہائیکورٹس کے فیصلوں کو چیلنج کیا گیا ہے، اور تقریباً 400 افراد کے ایڈریسز شاید درست نہیں ہیں، جس کے باعث نوٹسز کی تعمیل میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
عدالت نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی کہ نوٹسز کی تعمیل اخبار کے اشتہار کے ذریعے کی جائے۔ وکیل نے اس موقع پر کہا کہ مقدمے میں اپیلوں کے قابل سماعت ہونے کا معاملہ بھی شامل ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر اس معاملے کو سنیں گے اور کیس کی مزید سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
اس سماعت میں یہ بھی کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل سے متعلق مقدمات سمیت مجموعی طور پر 2 ہزار سے زائد مقدمات سماعت کے لیے مقرر کیے تھے۔ اسی دوران، آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس، انتخابات 2024 اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) دور کی قانون سازی سے متعلق درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کئی درخواست گزاروں پر جرمانے بھی عائد کیے تھے۔
5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس 26ویں ترمیم کے تحت منعقد ہوا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان کے تقرر کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا، جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی۔ اجلاس میں آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر ووٹنگ کرائی گئی، اور کمیشن کے 12 ارکان میں سے 7 نے 7 رکنی آئینی بینچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔۔