حکومت کا آبادی کے دھماکے سے نمٹنے کے لیے اہم اقدام
دنیا کی آبادی میں بے ہنگم اضافے نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہر سال لاکھوں نئے افراد کی آمد نے وسائل کی کمیابی کو جنم دیا ۔بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث شہروں میں بھیڑ بھاڑ، بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مشکلات جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ قدرتی وسائل کا غیر متوازن استعمال اور ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں اضافہ بھی اس خطرناک صورتحال کے نتیجے ہیں۔ ہم نے اگر فوری طور پر اس مسئلے کا حل نہ نکالا تو آنے والی نسلوں کو ایک ایسی دنیا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں زندگی کے بنیادی حقوق بھی محض ایک خواب بن کر رہ جائیں گے۔
پاکستان دنیا کے چھٹے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں شامل ہے2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 208 ملین تک پہنچ چکی ہے جو کہ ایک قابل غور اعداد و شمار ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ملک کی معاشی ترقی کو متاثر کر رہی ہے بلکہ صحت اور تعلیم کے نظام پر بھی دباؤ ڈال رہی ہے۔
آبادی کی بڑھوتری کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں زچگی کی شرح میں اضافہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ پاکستان میں زچگی کی شرح اب بھی کئی دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ماں اور بچے کی صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، پاکستان میں ہر سال 1,300,000 بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد کو مناسب صحت کی سہولیات نہیں مل پاتیں۔
پاکستان نے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ 1994 کی بین الاقوامی کانفرنس برائے آبادی و ترقی اور 2000 کے ملینیئم ترقیاتی اہداف جیسے عالمی مقاصد کے تحت حکومت نے اپنی پالیسیوں کو بہتر بنانے کا عزم کیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم ہدف 2030 تک مانع حمل اشیاء کی دستیابی کی شرح کو 51 فیصد تک پہنچانا ہے۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے جو حکومت کی خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کو بہتر بنانے کی عکاسی کرتی ہے۔
حکومت نے اکتوبر 2021 میں فیملی پلاننگ اور آبادی کنٹرول کے ٹاسک فورس کی سفارشات کے تحت ایک مربوط سپلائی چین نظام تشکیل دیا۔ اس نظام کا مقصد مانع حمل اشیاء کی درست پیشگوئی، سپلائی کی منصوبہ بندی اور بہتر فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس پروگرام کے تحت مختلف عوامی اداروں جیسے 30 بڑے ہسپتالوں، سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ کی شاخوں اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستفیدین کو مانع حمل اشیاء فراہم کی گئی ہیں۔
اس اسکیم کی کامیابی کی ایک مثال یہ ہے کہ 2021 میں تقریباً 2.3 ملین کنڈوم، 380,000 گولیاں، اور 220,000 آئی یو ڈی فراہم کی گئیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ حکومت اس شعبے میں کتنا سنجیدہ ہے اور کس طرح وہ عوام کی صحت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عوامی صحت کے اس پروگرام میں نجی شعبے کی این جی اوز جیسے ہینڈز، پاتھ فائنڈر، آر ایس پی این اور اکبر حامد فاؤنڈیشن نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان این جی اوز نے مانع حمل اشیاء کی فراہمی کے لیے حکومت کے ساتھ شراکت داری کی ہےجس کے نتیجے میں پنجاب میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک وسیع رسائی ممکن ہوئی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحت کے شعبے میں حکومتی اور نجی دونوں اداروں کی شراکت داری کتنی اہم ہے۔
زچگی کی صحت کے حوالے سے پاکستان میں کئی چیلنجز ہیں۔ ہر سال 17,000 سے زائد خواتین زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی کمی کا اثر براہ راست خواتین کی صحت پر پڑتا ہے۔ بہتر مانع حمل اشیاء کی دستیابی سے نہ صرف زچگی کی شرح میں کمی آئے گی بلکہ ماں اور بچے کی صحت کے نتائج میں بھی بہتری آئے گی۔
آبادی کے مسائل کے حل کے لیے آگاہی اور تعلیم بھی انتہائی اہم ہیں۔ عوامی آگاہی کے پروگرامز، جن میں خواتین کو صحت کی خدمات تک رسائی اور مانع حمل طریقوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں، نہایت ضروری ہیں۔ اگر لوگوں کو اپنی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں تو وہ اپنی زندگی کے بارے میں باخبر فیصلے کر سکیں گے۔
پاکستان میں آبادی کی بڑھوتری کے چیلنجز بے شمار ہیں، لیکن ان کے حل کے لیے حکومت کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ مستقبل میں اگر حکومتی اور غیر حکومتی ادارے مل کر کام کرتے رہیں تو امید ہے کہ آبادی کے مسائل میں کمی آئے گی۔ بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے بھی یہ ممکن ہے کہ پاکستان اپنے آبادی کے مسائل کو بہتر طور پر حل کر سکے۔