پاکستان بھر میں زیر زمین پانی میں کمی کی تشویشناک صورتحال ، ماضی کا ایک کامیاب تجربہ
پانی ایک ایسی نعمت ہے جس کی اہمیت کا اندازہ ہم سب بخوبی لگا سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف ہماری زندگی کی بقاء کے لیے ضروری ہے بلکہ ہر پہلو پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ زمین کی سطح پر موجود تمام پانی کا صرف 2.5فیصد میٹھا پانی ہے اور اس میں بھی زیادہ تر پانی گلیشیئرز اور برف کی صورت میں محفوظ ہے جبکہ صرف ایک فیصد پانی براہ راست پینے کے قابل ہوتا ہے۔ ان محدود وسائل کی وجہ سے پانی کا مناسب استعمال اور اس کے تحفظ کی ضرورت آج پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے تاکہ ہر فرد کو صاف اور صحت بخش پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی سرگرمیوں کے باعث زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح میں گزشتہ 8سالوں کے دوران جو کمی واقع ہوئی ہے وہ ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 22.84فیصد رقبے کو زیر زمین پانی سے مکمل طور پر محروم قرار دیا جا چکا ہے اور 36.17فیصد زمین بھی خشک ہونے کے قریب ہے۔ پنجاب میں 5 فٹ گہرائی تک پانی کی سطح میں 3.2 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ 5 سے 10 فٹ گہرائی میں تقریباً 11 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ یہ کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پانی کے زیر زمین ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جو کہ فصلوں کی پیداوار اور زرعی سرگرمیوں کے لیے تشویش ناک ہے۔
خیبر پختونخوا میں پانی کی صورتحال زیادہ سنگین ہے۔ یہاں 32.96 فیصد زمین کے نیچے ایک بوند بھی پانی باقی نہیں رہی اور صوبے کے 42 فیصد رقبے میں زیر زمین پانی کے مکمل ختم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار خیبر پختونخوا کے ماحولیاتی اور زرعی نظام پر بڑے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ خشک سالی اور پانی کی کمی کے باعث نہ صرف زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے بلکہ مقامی شہریوں کی پانی تک رسائی بھی مشکل ہو رہی ہے۔
سندھ اور بلوچستان میں 5 فٹ گہرائی تک پانی کی سطح میں 1.23 فیصد کمی دیکھی گئی ہے جبکہ 5 سے 10 فٹ گہرائی تک یہ کمی 65.54 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے 0.03 فیصد رقبے کا زیر زمین پانی مکمل طور پر سوکھ چکا ہے اور دونوں صوبوں میں 0.39 فیصد زمین بھی جلد ہی پانی سے خالی ہو جائے گی۔
زیر زمین پانی کی سطح میں اس قدر کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں بنیادی طور پر پانی کے بے دریغ استعمال، آبپاشی کے غیر مؤثر طریقے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات شامل ہیں۔ زراعت میں پانی کی زیادتی اور اس کی ناقص منصوبہ بندی بھی اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مزید برآں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی پانی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے، جس نے زیر زمین ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہمیں فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پانی کی بچت اور استعمال میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ آبپاشی کے جدید اور مؤثر طریقے اپنانے چاہئیں تاکہ پانی کا ضیاع کم ہو سکے۔ مزید برآں پانی کے ذخائر کی نگرانی اور تحفظ کے لیے حکومت اور مقامی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے عوامی آگاہی مہمات بھی چلائی جانی چاہئیں تاکہ لوگوں کو پانی کی اہمیت اور اس کے درست استعمال کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
لاہور میں 2015ء میں انجینئرز کے ایک تجربے نے ثابت کیا کہ اس بحران کا ایک قابل عمل حل موجود ہے جو نہ صرف پانی کی سطح کو بحال کر سکتا ہے بلکہ شہر کی سڑکوں کو بھی بارشوں کے دوران تالاب بننے سے بچا سکتا ہے۔لاہور شہر پہلے دریائے راوی کی جانب سے حاصل کردہ پانی پر انحصار کرتا تھا لیکن 2000ء میں بھارتی حکومت نے راوی پر تھہین ڈیم بنا کر دریائے راوی کے بہاؤ کو 85 فیصد کم کر دیا۔ حالیہ برسوں میں شاہ پور کنڈی بیراج کی تعمیر نے اس بہاؤ کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال تین فٹ کی شرح سے گر رہی ہے۔ آج یہ پانی 600 سے 800 فٹ کی گہرائی تک جا چکا ہے اور مزید 12 فٹ کی گہرائی کے بعد زیرِ زمین پانی ختم ہو جائے گا۔انجینئرز کا دلچسپ تجربہ2015ء میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں انجینئرز نے ایک جدید اور ماحول دوست تجربہ کیا۔ انہوں نے سڑکوں پر 43 ایسی نشیبی جگہوں کی نشاندہی کی جہاں بارش کے بعد پانی جمع ہو جاتا تھا۔ ان مقامات پر انہوں نے دو پانی چوس کنوئیں بنائے جن کی ہر ایک کی پیمائش 6x9x8 فٹ تھی۔ ان کنوؤں میں 2 فٹ موٹے پتھر، ایک ایک فٹ بجری اور ریت کی تہہ رکھی گئی اور نیچے ایک فٹ گولائی والا سوراخ دار پائپ زیرِ زمین پانی تک پہنچایا گیا۔پہلی بارش میں یہ کنوئیں حیرت انگیز طور پر سڑک پر کھڑے ہونے والے ایک لاکھ لٹر پانی کو صرف تین گھنٹوں میں جذب کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد سڑک پر ٹریفک کا بہاؤ معمول کے مطابق بحال ہو گیا اور اس پانی کی صفائی کے لیے مستند لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروانے پر پتہ چلا کہ کنوئیں بارشی پانی کی آلودگی کو بھی صاف کرتے ہیں اور زیرِ زمین جانے والا پانی انتہائی صاف ستھرا ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ایک ہی بارش کے دوران پانی کی سطح 3.5 فٹ بلند ہو گئی۔انجینئرز نے اس تجربے کی بنیاد پر تخمینہ لگایا کہ لاہور میں اس طرح کے کنوئیں لگا کر نہ صرف سڑکوں پر پانی جمع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بحال کی جا سکتی ہے۔ اگر لاہور کی تمام 43 نشیبی جگہوں پر پانی چوس کنوئیں لگائے جائیں تو ان کی مجموعی لاگت ایک بڑے فلائی اوور بنانے سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ انجینئرز نے اندازہ لگایا کہ لاہور کے 1800 اسکوائر کلو میٹر سے زیادہ رقبے پر مون سون کی بارشوں کے دوران حاصل شدہ پانی سے ایک کروڑ سے زائد لوگوں کے لیے پورے سال کا پینے کا پانی اور صنعتی استعمال کے پانی کی ذخیرہ اندوزی ممکن ہے۔پانی کی سطح کی بحالی کی ضرورت لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح کی مسلسل کمی کے پیشِ نظر، اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پرانے لاہور کے کچھ علاقوں میں زیرِ زمین پانی 600 فٹ کی گہرائی پر بھی مشکل سے ملتا ہے اور ہر سال 3 فٹ کی شرح سے پانی کی سطح گر رہی ہے۔ شہر کے دو ہزار ٹیوب ویل روزانہ 3500 ایکڑ فٹ پانی نکال رہے ہیں اور لاہور کو سالانہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی کے خسارے کا سامنا ہے۔اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لاہور میں "چھپڑ” سسٹم کو بحال کرنا ضروری ہے جو کہ ماضی میں اس شہر کے زیرِ زمین پانی کو برقرار رکھنے کا مؤثر طریقہ تھا۔ اس سسٹم کے تحت لاہور کے پارکوں اور کھلی جگہوں پر ڈونگی گراؤنڈز قائم کیے جائیں جن کے اطراف میں پانی کے ری چارج کنوئیں بنائے جائیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ان تجربات اور نظریات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ لاہور میں پانی کی سطح بحال کرنے کے لیے ایک ری چارج اتھارٹی قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ان منصوبوں پر عمل درآمد کرائے۔ اگرچہ کچھ پائلٹ پروجیکٹس اور تجربات کیے گئے ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر ان فوائد کا کوئی خاطر خواہ استفادہ نہیں ہو سکا۔ لاہور کی سڑکوں کی حالت، جو بارشوں کے بعد تالاب بن جاتی ہیں، اور زیرِ زمین پانی کی سطح کی گہرائی، اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔پاکستان کے خشک ہوتے دریاؤں کے پیشِ نظر، مون سون کی بارشوں سے ایکوائفر کا ری چارج ایک بہترین قدرتی حل ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس بحران کا مؤثر حل صرف تکنیکی نہیں بلکہ ایک اجتماعی اور سنجیدہ عزم بھی ہے جو لاہور کی پانی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے اور شہر کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کر سکتا ہے۔