جنسی جرائم کا بڑھتا ہوا طوفان،خوفناک اعداد و شمار
پاکستان میں جنسی جرائم اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ہمارے معاشرے کے اخلاقی زوال کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ان حالات میں معاشرتی تعلیم، تربیت، اور اقدار پر سوالات اٹھنا فطری ہے۔ حال ہی میں سینٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں پیش کی گئی رپورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں جنسی زیادتی، ریپ، غیرت کے نام پر قتل، اور گھریلو تشدد کے ہولناک اعدادوشمار سامنے رکھے جنہوں نے نہ صرف حکومتی اداروں بلکہ عوام کو بھی چونکا کررکھ دیا ہے۔
پنجاب پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کے مطابق، 2021 سے جولائی 2024 کے دوران پنجاب میں جنسی زیادتی کے 10,342 کیسز، ریپ کے 16,317 کیسز اور قتل کے 10,124 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ایک ایسے معاشرے کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں انسانیت زوال پذیر ہے اور خواتین و بچے درندوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ خاص طور پر بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات جیسے کہ 2018 میں قصور کی معصوم زینب کا کیس ہماری اخلاقی بیداری پر ایک کڑا امتحان بن کر سامنے آیا۔
خیبرپختونخوا کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔ وہاں جنسی زیادتی، ریپ، گھریلو تشدد، اور غیرت کے نام پر قتل کے 15,079 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ خواتین اور بچے ہر گز محفوظ نہیں ہیں۔ ریپ اور جنسی تشدد کے یہ واقعات معاشرتی زوال کی علامت ہیں جسے ہم جتنا نظر انداز کرتے ہیں اتنا ہی یہ مسئلہ ہمارے سامنے ابھر کر آتا ہے۔
ہمارا معاشرہ ان متاثرین کے لیے کس قدر سفاک ہو چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر اوقات زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین خود کو قصوروار محسوس کرتی ہیں کیونکہ سماج ان پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں زیادتی کے زیادہ تر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مسئلہ کتنا بڑا ہے۔
اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں جن میں سے سب سے اہم پہلو والدین اور معاشرتی تربیت ہے۔ بچے اپنے والدین سے سیکھتے ہیں اور جو کچھ وہ اپنے گھروں میں دیکھتے ہیں وہی بعد کی زندگی میں ان کے رویوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ مرد اور عورت کے تعلقات کی بنیاد عزت اور محبت پر ہونی چاہیے مگر ہمارے ہاں اکثر اوقات عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ ایک عورت جو شوہر کے انتظار میں سالوں تک زندہ رہتی ہے کیا اس کے جذبات اور حقوق کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟
غیرت کے نام پر قتل ہمارے معاشرتی زہر کا ایک اور پہلو ہے۔ یہ وہ جہالت ہے جسے ہم نے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2023 میں غیرت کے نام پر 550 افراد قتل ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔ یہ خواتین کسی بھائی، شوہر، یا باپ کے ہاتھوں مار دی جاتی ہیں، اور یہ سب محض "غیرت” کے نام پر کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس جہالت سے کب نجات حاصل کریں گے؟
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے معاشرتی مسائل کا حل صرف قانون سازی نہیں ہے بلکہ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر 2019 میں زینب الرٹ بل کا نفاذ ایک اہم قدم تھا مگر اس پر عملدرآمد میں ناکامی نے اس کے اثرات کو کم کر دیا۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے ادا کریں اور سماجی برائیوں کے خلاف سختی سے نمٹیں تو ہمارے معاشرے میں ایسی خوفناک صورتحال پیش نہ آئے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں خواتین کو گھروں اور دفاتر میں جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دفاتر میں خواتین کو اپنے مرد ساتھیوں کی طرف سے نا مناسب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو کہ ان کے ذہنی تناؤ اور جذباتی دباؤ کا سبب بنتے ہیں۔ ایک عورت کے لیے اس طرح کے ماحول میں کام کرنا مشکل ہوتا ہے، جہاں اس کی عزت پر حملہ ہر وقت موجود ہو۔
بین الاقوامی سطح پر بھی جنسی زیادتی کے واقعات ایک خطرناک رحجان بن چکے ہیں۔ بھارت میں روزانہ اوسطاً 92 ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جبکہ دہلی اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح لندن جیسے ترقی یافتہ شہروں میں بھی ہر گھنٹے ایک جنسی زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوتا ہے۔ یہ اعدادوشمار دنیا بھر میں خواتین کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں پر سوالات کھڑے کرتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنی تربیت اور تعلیم کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں میں عورت کی عزت و وقار کو سمجھا جا سکے۔ اس کے علاوہ، قوانین کے نفاذ میں سختی لانی ہوگی اور متاثرین کو سماجی تحفظ فراہم کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی آواز بلند کر سکیں۔ جب تک ہم اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں لائیں گے، یہ مسئلہ بڑھتا رہے گا اور ہماری نسلیں اس زہر کا شکار ہوتی رہیں گی۔ہمیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کو بھی بہتر بنانا ہوگا اور ایسی سوچ کو فروغ دینا ہو گا جو عورت کی عزت اور حقوق کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقیناً ہم اپنے معاشرتی مسائل کا حل پا سکتے ہیں۔