فوج سمیت ہر ادارے میں ایکسٹینشن غلط ہے، پارلیمنٹ کو بھی حق ملنا چاہیے: فضل الرحمان
اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایکسٹینشن کا عمل فوج سمیت ہر ادارے میں غلط ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ایکسٹینشن کا حق فوج اور دیگر اداروں کو دیا جا رہا ہے، تو پارلیمنٹ کو بھی یہی حق حاصل ہونا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان نے الزام عائد کیا کہ ماضی میں ایک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع زبردستی اور دباؤ ڈال کر کرائی گئی تھی، اور یہ عمل جمہوری روایات کے خلاف ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی کے اجلاس میں پولیس کی جانب سے کے پی کے میں جاری دھرنوں اور احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس نے فرائض انجام دینے سے انکار کر دیا تو ملک کا کیا بنے گا؟ انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے اپنی ایکسٹینشن کے لیے فکر مند ہیں، جبکہ عوامی مفاد کے مسائل کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ فضل الرحمان نے مزید کہا کہ اگر فوج اور عدلیہ میں ایکسٹینشن کا عمل درست مانا جا رہا ہے، تو پارلیمنٹ کو بھی اس کا حق ملنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے عدالتی نظام پر بھی کڑی تنقید کی اور کہا کہ ہمارا عدالتی نظام فرسودہ ہو چکا ہے، اور اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ عدالتیں سیاسی گروہوں میں بٹ چکی ہیں اور ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے عدالتوں کا استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ آئینی معاملات کے لیے الگ عدالتیں قائم کی جائیں تاکہ آئینی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا سکے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے فوج اور عدلیہ میں ایک ہی معیار مقرر کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہمیں یاد ہے کہ کس طرح دباؤ ڈال کر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرائی گئی تھی۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 60 ہزار سے زائد کیسز زیر التواء ہیں اور یہ صورتحال قابل قبول نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ عدالتی نظام انگریز دور کا باقیات ہے اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے حکومت کو فوری طور پر اصلاحات لانی ہوں گی اور اپوزیشن کے ساتھ مشاورت سے ان اصلاحات کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہیے۔
فضل الرحمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ریاستی ادارے جیسے عدلیہ اور فوج کو گروہ بندی سے بچانا چاہیے اور ان میں موجود تقسیم کو ختم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اٹھارہویں ترمیم کے تحت پارلیمنٹ کو اختیار حاصل تھا، لیکن انیسویں ترمیم میں ایک جج نے پارلیمنٹ پر دباؤ ڈال کر ترمیم کروائی۔
مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کے پی اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکیں عروج پر ہیں اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں قومی ترانہ اور جھنڈے کا استعمال ممنوع ہو چکا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو ان مسائل پر فوری توجہ دینی چاہیے اور ان علاقوں کے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔
آخر میں فضل الرحمان نے ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک کو اس ناسور سے نجات دلانے کے لیے تمام سیاسی و عسکری قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا چاہیے۔