پاکستانی نیلے پانی سے قیمتی ذخائر کی دریافت
وطنِ عزیز کے حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کے تعاون سے اس کی سرحدوں سے متصل پاکستان کے سمندر میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں، جنھیں بروئے کار لانے سے پاکستان پیٹرولیم اور گیس کی دولت کے اعتبار سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن سکتا ہے۔ ذخائر کے اعتبار سے اس وقت وینزویلا پہلے اور امریکہ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ سعودی عرب، ایران، کینیڈا اور عراق کا نمبر ترتیب واران کے بعد آتا ہے۔ نیلے پانیوں کی معیشت کا یہ معجزہ تین سالہ جامع جغرافیائی سروے کا ثمر ہے، جس سے متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ مصدقہ معلومات کے مطابق ذخائر کی تلاش کا کام مستقبل قریب میں شروع کیا جائے گا تاہم کنوؤں کی کھدائی اور دیگر انفراسٹرکچر کی تکمیل میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس کام کیلئے پانچ ارب ڈالر کی فوری سرمایہ کاری درکار ہوگی۔ سروے کے مطابق پاکستان کے ساحلِ سمندر میں تیل و گیس کے علاوہ بڑی مقدار میں معدنیات اور دوسری قیمتی دھاتیں بھی موجود ہیں، جنھیں بروئے کار لاکر ملک کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماہرین عرصہ دراز سے بلوچستان کے ساحل سمندر میں پیٹرولیم اور گیس کی موجودگی کا انکشاف کر رہے ہیں جنھیں نکال کر ملک کی پچاس سال تک کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ چونکہ پاکستان اس وقت اربوں ڈالر غیر ملکی تیل و گیس کی درآمد پر خرچ کررہا ہے، اگر یہ چیزیں اپنے سمندر سے دستیاب ہوجائیں تو یہ قیمتی زرمبادلہ بچ سکتا ہے اور ملکی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ماہرین زیادہ توقعات وابستہ کرنے کے حق میں نہیں لیکن حکومت کو سمندری وسائل بروئے کار لانے کیلئے اپنی کوششیں تیز کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئیں۔
اسے بھی پڑھیں گزرے زمانے میں پاکستان کا بنیادی مسئلہ
اگرچہ سمندر میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر کا دریافت ہونا بہت بڑی خبر ہے لیکن اس کے ہر مرحلے پر بہت اگر اور مگر بھی موجود ہیں، اگر دوست ملک (ایران) کے ساتھ مل کر اتنے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں تو ہم انشااللّٰہ انہیں نکال لیں گے، لیکن اس سے قبل بھی زیر سمندر تیل و گیس کے ذخائر دریافت کرنے کی کئی بار کوششیں ہو چکی ہیں مگر ہماری کمزور معیشت کی وجہ سے ہم ڈرلنگ کے اخراجات برداشت نہیں کر پاتے اور جتنی بار ڈرلنگ ہونی چاہیے تھی اتنی بار نہیں ہوئی، اب اگر پہلے سے زیادہ ڈیٹا دستیاب ہے تو جلد از جلد دوبارہ ڈرل ہونی چاہیے کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ پاکستان کے آف شور میں کوئی ذخائر نہ ہوں۔ تیل کے ذخائر کی دریافت یقیناٙٙ گیم چینجر ثابت ہوگی، جبکہ گیس کے ذخائر ملنے سے معاشی لحاظ سے قسمت بدل سکتی ہے۔ اگر آف شور کی دریافت ہو بھی جاتی ہے تو بھی ذخائر کو سسٹم میں لانے کے لیے 4 سے 5 سال لگتے ہیں کیونکہ پھر سمندر کے اندر آپ کو پیداوار کا پلیٹ فارم بنانا پڑتا ہے، وہاں سے پائپ لائنز لانی پڑتی ہیں، گیس پروسیسنگ پلانٹس لگانے پڑتے ہیں، لیکن اگر یہ دریافت ہوگئی تو اس کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کی معیشت کے ڈائنامکس تبدیل ہوجائیں گے۔ پاکستانی کم از کم اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ تیل و گیس کی صنعت میں ہمارے لوگ آرامکو اور دُنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کو چلا رہے ہیں جن کے پاس اس شعبہ سے متعلق تکنیکی تعلیم بھی موجود ہے اور تجربہ بھی۔ اس لیے ہمیں افرادی قوت کی کوئی قلت نہیں ہوگی، مسئلہ فیصلہ سازی کی اہلیت و سیاسی مداخلت کا ہے کہ وہ کس حد تک مُلکی تقدیر بدلنے کے بارے سوچتے اور فیصلہ لیتے ہیں۔ اگر بات کی جائے دریافت شدہ ذخائر کے خرچ کی تو ڈرلنگ کے ذخائر کا تعین کرنے کے مرحلے تک پہنچنے کے لیے ہمیں 40 سے 50 کروڑ ڈالر درکار ہوں گے، اس کے بعد ایک آف شور کے کنویں کے لیے 10 سے 15 کروڑ ڈالر کے اخراجات آتے ہیں، پھر اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ذخائر اس سائز کے ہیں کہ جس کے لیے ہمیں پائپ لائن و گیس پروسیسنگ سسٹم لگانے کی ضرورت ہے تو گنجائش سے لحاظ سے 50 کروڑ سے ایک ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ یہ سب جمع خرچ یقیناٙٙ مُلکی تقدیر بدلنے کے لئے ہمیں ہر صورت کرنے ہوں گے اور اس مقصد کیلئے وسائل کی فراہمی کا بندوبست ہونا بہت ضروری ہے۔