رانا ثنا اللہ کے بیان کی تردید کرتا ہوں، توسیع نہیں لوں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کے بیان کی سختی سے تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ ملازمت میں توسیع لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ توسیع لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور وہ اس بارے میں پہلے بھی اپنی پوزیشن واضح کر چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ایک غیر رسمی گفتگو کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر رانا ثناء اللہ صاحب کو ان کی جانب سے توسیع لینے کی کوئی اطلاع ہے تو انہیں خود سامنے لایا جائے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملاقات میں، جس میں اعظم نذیر تارڑ، جسٹس منصور علی شاہ اور اٹارنی جنرل موجود تھے، توسیع کے حوالے سے بات ہوئی تھی، لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا کہ وہ اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا، "مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کل زندہ رہوں گا یا نہیں، تو ایسی صورت میں ملازمت میں توسیع کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟
اسی گفتگو میں ایک اور صحافی نے 6 ججز کے خط کے معاملے پر سوال کیا کہ کیوں اس کیس کی سماعت مقرر نہیں ہو رہی؟ اس پر چیف جسٹس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو کمیٹی نے سماعت کے لیے مقرر کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جسٹس مسرت ہلالی کی طبیعت کی ناسازی کے باعث بینچ تشکیل نہیں پا سکا، لیکن جیسے ہی یہ ممکن ہوا، کیس کی سماعت ہو گی۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب 2 ستمبر کو وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ توسیع نہیں لینا چاہتے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ کہنا کہ چیف جسٹس توسیع لے رہے ہیں، سراسر غلط ہے اور اس معاملے پر مزید بات کرنا غیر ضروری ہے۔یہ صورتحال اس وقت اور پیچیدہ ہو گئی جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے الزام عائد کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ حکومت کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ الیکشن میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور ان کے جانے کے بعد چار حلقے کھلیں گے، جس کے بعد حکومت گر جائے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھا گیا ایک خط بھی حالیہ عدالتی اور حکومتی دباؤ کا مظہر ہے۔ یہ خط جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا، جس میں ججز پر خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور دباؤ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
خط میں کہا گیا کہ عدلیہ کے کام میں مداخلت کرنے والے اہلکاروں کی تحقیقات انتہائی ضروری ہیں، تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کی پالیسی ابھی بھی جاری ہے یا نہیں۔ ججز نے عدالت کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک جوڈیشل کنونشن بلانے کی بھی درخواست کی۔