پاک فوج کی خود احتسابی۔۔۔ قومی اداروں کے لیے مشعلِ راہ
پاکستان کو دہشت گردی کے مسئلے کا سامنا ایک طویل عرصے سے رہا ہے لیکن اس کے خلاف جاری جنگ میں جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں وہ نہ صرف ہماری سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کا نتیجہ ہیں بلکہ قوم کے عزم کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیاں نہ صرف امن و استحکام کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ وہاں کی عوام کے دلوں میں بے چینی اور خوف کا بیج بھی بوتی ہیں۔حال ہی میں 25 اور 26 اگست کی رات کو بلوچستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیاں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں، جہاں معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کارروائیوں کا مقصد علاقے میں جاری ترقیاتی منصوبوں اور عوامی بہبود کو سبوتاژ کرنا ہے۔ بیرونی طاقتوں کی فنڈنگ اور ان کے ایما پر چلنے والی یہ سازشیں اس بات کی غماز ہیں کہ دہشت گرد عناصر کو بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی ہضم نہیں ہو رہی۔
قوموں کی ترقی اور ان کے اداروں کی مضبوطی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا ادراک کریں اور اصلاح کا عمل جاری رکھیں۔ پاک فوج نے اس حوالے سے ایک قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ فوج نے نہ صرف خود احتسابی کا عمل مضبوط کیا ہے بلکہ اس کے تحت مختلف معاملات میں غیر جانبدارانہ کارروائی بھی کی ہے۔
احتساب کا عمل صرف فوج تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ دیگر تمام ریاستی اداروں کو بھی اس روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ خود احتسابی کے عمل کو اپنایا جائے۔یہ ایک ایسی پالیسی ہے جو دیگر اداروں کے لیے بھی مشعلِ راہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک ترقی پذیر قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام اداروں میں شفافیت کو فروغ دے اور جب کوئی فرد یا ادارہ قانون سے ہٹ کر ذاتی یا سیاسی مفادات کو پروان چڑھانے کی کوشش کرے تو اسے لازمی طور پر جوابدہ ہونا چاہیے۔ پاک فوج کے اندر خود احتسابی کے اس مضبوط نظام نے بارہا ثابت کیا ہے کہ یہاں کسی بھی فرد کو ذاتی مفاد کے لیے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی چاہے وہ ریٹائرڈ ہو یا حاضر سروس۔
جنرل (ر) فیض حمید کے کیس کا تذکرہ ایک اہم مثال ہے جس میں فوج نے یہ ثابت کیا کہ وہ کسی بھی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرتی اور کسی بھی اعلیٰ رینک کے افسر کو قوانین کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ جب ادارے عوام کے اعتماد کے ساتھ شفافیت کو فروغ دیتے ہیں تو عوام بھی ان اداروں پر بھروسہ کرتی ہے اور ملکی ترقی کا سفر تیز ہو جاتا ہے۔
امن و امان کے حوالے سے پاک فوج کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فوج کی جانب سے کیے جانے والے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز نے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی کوششوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ رواں سال 32 ہزار سے زائد آپریشنز کیے گئے جن میں کئی دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور بڑی تعداد میں علاقے کلیئر کیے گئے۔ یہ آپریشنز ایک واضح پیغام ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور ہر اس عنصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جو ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔
بلوچستان میں دہشت گردی کا مسئلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے جہاں بیرونی فنڈنگ سے مقامی لوگوں میں احساس محرومی کا بیانیہ بنایا جاتا ہے۔ پاک فوج نے ان تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے اور وہاں کی عوام کو دہشت گردوں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاک فوج نے ان علاقوں کو کلیئر کر کے وہاں کے عوام کے لیے امن و ترقی کا راستہ ہموار کیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا آغاز صوبائی اور مقامی حکومتوں کا بنیادی فریضہ ہے۔ فوج کا کام علاقے کو کلیئر کر کے ایک سازگار ماحول مہیا کرنا ہے تاکہ وہاں معاشی اور سماجی ترقی کے منصوبے شروع کیے جا سکیں۔ یہ ترقیاتی منصوبے نہ صرف ان علاقوں کے عوام کے لیے فائدہ مند ہوں گے بلکہ ملکی معیشت کو بھی مضبوط کریں گے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ، داخلی سلامتی کے مسائل اور اداروں کی خود احتسابی جیسے معاملات پر فوکس کرنے سے پاکستان کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو ہر پاکستانی کو اپنانا چاہیے تاکہ ہم ایک بہتر اور روشن مستقبل کی جانب بڑھ سکیں۔
رواں سال پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشنز کے دوران شاندار کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق اس سال کے دوران دہشت گردوں کے خلاف 32,000 سے زائد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے، جن میں روزانہ کی بنیاد پر 130 سے زائد کارروائیاں شامل ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران فورسز نے 90 دہشت گردوں کو واصلِ جہنم کیا جبکہ آٹھ ماہ میں کل 193 بہادر افسران اور جوانوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ 25 اور 26 اگست کی رات بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے جواب میں، سیکیورٹی فورسز نے 21 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، جبکہ اس دوران 14 جوان شہید ہوئے۔
عوام کا اعتماد کسی بھی ادارے کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے، اور اگر ادارے عوامی اعتماد کو قائم رکھنے میں کامیاب رہیں گے تو ملک کے استحکام اور ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی داخلی سلامتی کو مستحکم کریں اور بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔