وفاقی اور صوبائی ادارے بجلی کمپنیوں کے 2.56 کھرب روپے کے نادہندہ
اسلام آباد: وزارت توانائی پاور ڈویژن کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتی ادارے بجلی کمپنیوں کے 2.56 کھرب روپے کے واجبات ادا نہیں کر رہے ہیں۔ یہ بات قابل تشویش ہے کہ حکومتی ادارے خود ہی بجلی کی مد میں بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جس سے ملک کی معاشی صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔
دستاویزات کے مطابق، وفاقی حکومتی ادارے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 47 ارب 81 کروڑ روپے کے نادہندہ ہیں، جبکہ صوبائی حکومتوں کے ماتحت ادارے ایک کھرب 51 کروڑ روپے کے واجبات ادا نہیں کر پائے ہیں۔ وفاقی حکومت کے ذمے مختلف بجلی کمپنیوں کی نادہندگی کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں: لیسکو کے 6 ارب 67 کروڑ، گیپکو کے 2 ارب 82 کروڑ، فیسکو کے ایک ارب 72 کروڑ، آئیسکو کے 14 ارب 13 کروڑ، میپکو کے 2 ارب 18 کروڑ، پیسکو کے 2 ارب 22 کروڑ، حیسکو کے 5 ارب 53 کروڑ، سیپکو کے 9 ارب 13 کروڑ، کیسکو کے 2 ارب 40 کروڑ، اور ٹیسکو کے 96 کروڑ روپے۔
صوبائی حکومتوں کی نادہندگی کا مسئلہ بھی خاصا سنگین ہے۔ پنجاب حکومت کے ذمے 33 ارب 5 کروڑ روپے، خیبر پختونخوا حکومت پر پیسکو اور ٹیسکو کے 26 ارب 25 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ اسی طرح، سندھ حکومت پر حیدرآباد اور سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کے 54 ارب سے زائد روپے کے بقایا جات ہیں، جبکہ بلوچستان حکومت کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کی 38 ارب 29 کروڑ روپے کی نادہندہ ہے۔ اس کے علاوہ، آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کے مختلف محکمے بھی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 56 ارب 77 کروڑ روپے کے واجبات ادا نہیں کر سکے۔
وزارت توانائی کے مطابق، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ان حکومتی اداروں کے خلاف کارروائی کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ حساسیت کے باعث ان محکموں کے بجلی کنکشن منقطع نہیں کیے جا سکتے۔ تاہم، نادہندگی پر اداروں کو کنکشن کاٹنے کے نوٹسز دیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ، پیٹرولیم شعبے کا گردشی قرضہ بھی بڑھ کر 2,897 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جس میں 814 ارب روپے سود بھی شامل ہے۔ وزارت توانائی کا کہنا ہے کہ گیس کے شعبے میں صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے سے ٹیرف میں فرق آیا اور یہی وجہ گردشی قرضے کے بڑھنے کا سبب بنی۔ حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے اور مالی سال 2024 سے قبل گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔