پولیس ایمانداری سے کام کرتی تو لاپتا افراد کا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا،عدالت شدید برہم
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر سماعت کے دوران پولیس کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی (جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) کے سربراہ کو طلب کر لیا ہے تاکہ معاملے کی پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے۔
بدھ کے روز سندھ ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے پولیس حکام اور جے آئی ٹی کے طرز عمل پر سخت تنقید کی۔ عدالت نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ جے آئی ٹی کے اجلاسوں میں گزشتہ 13 سالوں سے صرف رسمی کارروائیاں ہوتی ہیں اور لاپتا افراد کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی حقیقی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
عدالت نے خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ جے آئی ٹی کے اجلاسوں میں صرف چائے پینے اور رسمی کارروائیاں مکمل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے، جبکہ لاپتا افراد کے کیسز میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اگر ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرتی تو لاپتا افراد کا مسئلہ کافی عرصہ پہلے حل ہو چکا ہوتا۔
عدالت نے ایک 70 سالہ بزرگ شہری کی جانب سے مسلسل انصاف کے لیے دھکے کھانے کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس کی کارکردگی پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اجلاسوں میں برسوں سے اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ شہریوں کو کس نے غائب کیا ہے، جو پولیس کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ڈی ایس پی تھانہ پاکستان بازار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ناقص کارکردگی جاری رہی تو انہیں سینٹرل جیل بھیج دیا جائے گا۔ یہ سخت ریمارکس پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان اور عدالت کی جانب سے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔
عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے ہدایت دی کہ وہ لاپتا افراد کی بازیابی کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی مکمل رپورٹ پیش کریں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں سے بھی چار ہفتوں کے اندر مکمل رپورٹ طلب کی ہے تاکہ معاملے کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔