پاکستان میں خواتین کی صحت کی بگڑتی تشویشناک صورتحال
پاکستان کی خواتین کی صحت ایک ایسا موضوع ہے جس پر معاشرتی اور سرکاری سطح پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے، حالانکہ یہ مسئلہ ہماری قومی ترقی کے لیے اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے۔ غذائیت کی کمی نہ صرف خواتین کی صحت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے بلکہ یہ نسل در نسل صحت کے مسائل کو ایسی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جس سے نکلنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ تازہ ترین قومی نیوٹریشن سروے کے مطابق پاکستان میں 41 فیصد سے زائد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 22.4 فیصد خواتین وٹامن اے کی کمی میں مبتلا ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ ہماری خواتین کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں جو کہ نہ صرف ان کی جسمانی صحت بلکہ ان کی ذہنی اور سماجی فلاح کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ان خواتین میں سے 14.4 فیصد کا وزن کم ہے، 24 فیصد زائد وزن کا شکار ہیں، اور 13.8 فیصد موٹاپے کا شکار ہیں۔ یہ تمام مسائل مل کر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی صحت کا معاملہ کتنا حساس اور توجہ طلب ہے۔
پاکستان میں خواتین کی غذائیت کی کمی کا مسئلہ صرف جسمانی صحت تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ سماجی اور اقتصادی سطح پر بھی بڑے پیمانے پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہر سال حاملہ اور 15 سے 49 سال کی خواتین میں خون کی کمی کے 9 لاکھ 18 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ زچگی کے دوران غذائیت کا فقدان کتنا عام ہے۔ زچگی کے دوران غذائیت کی کمی کی وجہ سے ہر ایک لاکھ بچوں کی پیدائش پر 186 ماؤں کی موت واقع ہو جاتی ہے جو کہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔
یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان میں حاملہ خواتین اور ماؤں کی صحت کے حوالے سے کتنی بے حسی پائی جاتی ہے۔ دودھ پلانے کے ناقص معیار کے باعث ماؤں میں چھاتی اور اووری کے کینسر کے سالانہ 3 ہزار کیسز جبکہ ذیابیطس کی وجہ سے تقریباً 100 اموات بھی رپورٹ ہوتی ہیں۔ یہ تمام عوامل ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی صحت اور غذائیت کے مسائل پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔
پاکستان میں ہر سال 14 لاکھ نوزائیدہ بچوں کا کم وزن کے ساتھ پیدا ہونا اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ہماری خواتین اور بچے سنگین صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ اس کا اثر صرف بچوں کی موجودہ صحت پر ہی نہیں بلکہ ان کی مستقبل کی تعلیمی اور معاشرتی ترقی پر بھی منفی طور پر پڑتا ہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بھی یہ صورتحال انتہائی نقصان دہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو غذائیت کی کمی کی وجہ سے ہر سال کم از کم 17 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ نقصان نہ صرف ملکی معیشت پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔
پاکستان میں غذائیت کی کمی کی اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور سماجی ادارے مل کر ایک جامع حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ خواتین کی غذائیت کی بہتری کے لیے پہلے مرحلے میں عوامی شعور بیدار کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہو سکے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں غذائیت سے متعلق آگاہی پروگرامز شروع کیے جائیں تاکہ نوجوان نسل کو اپنی صحت کے حوالے سے بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت حاصل ہو۔
دوسری جانب حکومت کو فوری طور پر قومی سطح پر غذائیت کی بہتری کے منصوبے شروع کرنے چاہئیں جن میں خواتین کی غذائیت کو اولین ترجیح دی جائے۔ حاملہ خواتین کے لیے خصوصی غذائیت پروگرامز کا آغاز کیا جائے اور زچگی کے دوران غذائیت کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ماؤں اور بچوں کی صحت میں بہتری آئے۔
اس کے علاوہ غذائیت کی کمی سے نمٹنے کے لیے حکومت کو زراعت اور فوڈ انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ ملک میں غذائی قلت پر قابو پایا جا سکے۔ مقامی سطح پر تیار کی جانے والی غذائی اشیاء کو بہتر بنایا جائے اور انہیں عام آدمی کی پہنچ میں لایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی، خواتین کو صحت مند غذا کی فراہمی کے لیے سبسڈی فراہم کی جائے تاکہ غذائیت کی کمی کو کم کیا جا سکے۔
حکومتی سطح پر مضبوط اقدامات، عوامی شعور کی بیداری، اور سماجی اداروں کے تعاون سے ہی ہم اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں اور پاکستان کی خواتین کو ایک صحت مند اور خوشحال زندگی فراہم کر سکتے ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور اپنی خواتین کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔