پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے پاکستان کو سالانہ ایک ارب ڈالر کا نقصان
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ ایک سنگین مسئلہ بن گئی ہے، جس کی وجہ سے ملک کو سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ روزانہ تقریباً 10 ملین لیٹر پیٹرولیم مصنوعات زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے اسمگل کی جاتی ہیں، جو کہ پاکستان کی سالانہ کھپت کا 20 فیصد بنتی ہیں۔
یہ تشویشناک انکشاف او سی اے سی (آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل) کی جانب سے جمعہ کو لکھے گئے خط میں سامنے آیا ہے۔ خط میں اوگرا کے چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے پی او ایل مصنوعات کی اسمگلنگ میں اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے اور ریگولیٹر پر زور دیا گیا ہے کہ تیل کی صنعت کو لاحق سنگین خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔
او سی اے سی نے خبردار کیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ ملک کی ہائی اسپیڈ ڈیزل اور ایم ایس (موٹر اسپرٹ) کی جائز فروخت پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔ حکومت کو ان محصولات کی شدید ضرورت ہے تاکہ ملکی معاملات کو چلایا جا سکے، لیکن اسمگلنگ کے سبب قومی خزانے کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔
خط میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حکومت کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کچھ عرصے کے لیے اسمگلنگ کی مقدار میں کمی آئی تھی، لیکن بدقسمتی سے حالیہ مہینوں میں اسمگلنگ دوبارہ بڑھ گئی ہے۔ او سی اے سی نے انتباہ کیا ہے کہ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو اسمگلنگ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جو کہ قومی تیل کی سپلائی چین پر مزید منفی اثر ڈالے گا۔
ملک میں اسمگل شدہ پیٹرولیم مصنوعات کی بڑے پیمانے پر آمد پاکستان میں وائٹ آئل پائپ لائنز، ریفائنریز اور او ایم سیز (آرگنائزڈ مارکیٹنگ کمپنیاں) کی کارروائیوں کو متاثر کر رہی ہے۔ اگر یہ اسمگلنگ بلا روک ٹوک جاری رہی تو ملک کے گھریلو ریفائننگ شعبے کی مستقل بندش کا بھی خطرہ ہے۔