شور شرابے والے علاقے میں رہنے والوں کو ہارٹ اٹیک کا زیادہ خطرہ
پیرس : ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پڑوس میں شور شرابا نہ صرف ذہنی سکون کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ دل کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے، جس سے ہارٹ اٹیک ہونے کے خطرات میں اضافہ ہو جاتاہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 50 سال سے کم عمر افراد جو شور و غل والے علاقوں میں رہتے ہیں، ان کے دل کے دورے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، شور شرابے کے طویل عرصے تک مسلسل نمائش سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو پہلے سے ہی دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
فرانس کی یونیورسٹی آف برگنڈی اینڈ ہاسپٹل آف ڈیجون کی ماریانے زیلر کی قیادت میں ہونے والی ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ افراد جو پہلے ہارٹ اٹیک کا شکار ہو چکے ہیں، ان کے لیے شور شرابے والے علاقے میں رہائش دل کے مزید مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ ماریانے زیلر کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ شور شرابے کی نمائش دل کی صحت کو کس حد تک متاثر کر سکتی ہے۔
دونوں مطالعات کو لندن میں یورپی سوسائٹی آف کارڈیالوجی کی سالانہ میٹنگ میں پیش کیا گیا، جہاں مختلف ماہرین نے ان نتائج کا جائزہ لیا۔ ان مطالعات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شور شرابا صرف ایک عارضی پریشانی نہیں بلکہ یہ ایک طویل المدتی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔
اس تحقیق کی روشنی میں یہ بات اہم ہو جاتی ہے کہ شہروں میں شور شرابے کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں تاکہ لوگوں کی صحت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ خاص طور پر دل کے مریضوں کے لیے شور سے بچاؤ انتہائی ضروری ہے تاکہ ان کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج دل کی صحت کے حوالے سے اہم پیشرفت ہیں اور انہیں عوامی صحت کی پالیسیوں میں شامل کرنا چاہئے تاکہ شور شرابے کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ شور شرابے کو کم کرنے کے اقدامات جیسے کہ عمارتوں کی ساؤنڈ پروفنگ، ٹریفک کے نظام میں تبدیلیاں، اور عوامی آگاہی مہمات دل کی بیماریوں سے بچاؤ میںمعاون ہو سکتی ہیں۔
یہ تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ شور شرابے کو صرف ایک معمولی مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اسے دل کی بیماریوں کے حوالے سے ایک سنجیدہ خطرہ تصور کیا جانا چاہئے۔ اس تحقیق کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے، شور شرابے کی نمائش کو کم کرنے کے اقدامات اور دل کی صحت کو محفوظ بنانے کے لیے منصوبے ترتیب دینا ضروری ہیں۔