بھارت میں عیسائیوں کا قتل عام، فسادات کو 16 سال بیت گئے
25اگست 2008 کو بھارت کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ اس دن اڑیسہ کے ضلع کندھمال میں ہونے والے فسادات میں سینکڑوں عیسائیوں کا قتل عام کیا گیا۔ ہندو انتہا پسندوں نے بی جے پی کے زیرِ حکومت ریاست میں چار دن تک جاری رہنے والے ان فسادات میں 600 سے زائد عیسائی گاؤں اور 400 سے زیادہ چرچوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔
اس وحشیانہ کارروائی کے نتیجے میں سیکڑوں عیسائیوں کی جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ 75 ہزار کے قریب افراد بے گھر ہو گئے۔ان فسادات میں خاص طور پر عیسائی خواتین کو نشانہ بنایا گیا، جہاں 100 سے زائد خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ درجنوں خاندانوں کو زندہ جلا دیا گیا، اور ہزاروں عیسائیوں کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔
عالمی میڈیا نے بھی اس درندگی کو رپورٹ کیا، جس میں روئٹرز اور دیگر اداروں نے واضح کیا کہ کیسے ہندو انتہا پسندوں نے عیسائیوں پر ظلم کیا۔ان فسادات کے ذمہ دار بجرنگ دل، راشٹریہ سوائم سویک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد جیسی تنظیمیں تھیں، جنہوں نے ان مظالم کو انجام دیا۔
فرنٹ لائن رپورٹ کے مطابق، ان مظالم کی ریاستی سرپرستی کی گئی، جس کے نتیجے میں 50 ہزار عیسائیوں نے جنگلوں میں پناہ لی۔ایک واقعے میں ناگاؤں میں 40 انتہا پسندوں نے ایک عیسائی راہبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی، لیکن افسوس کہ عدالت نے عدم ثبوتوں کی بنیاد پر ان سب کو رہا کر دیا۔ہیومن رائٹس واچ، یورپی یونین اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے ممالک نے ان فسادات کی شدید مذمت کی، لیکن 16 برس گزرنے کے باوجود بھی مودی سرکار نے ان ملزمان کو سیاسی فوائد کے لیے سزا دینے سے گریز کیا۔