پارلیمنٹ تو سُپریم کورٹ کے فیصلہ کو بھی ختم کر سکتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی نظرثانی درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں معروف علماء کرام مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان اور دیگر علماء کی معاونت طلب کی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت علما کرام سے فیصلے میں ممکنہ غلطیوں کی نشاندہی کی درخواست کی اور بتایا کہ ہر نماز میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کوئی غلط فیصلہ کرنے سے بچائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کی طاقت کا احترام کرتے ہیں، اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو مانتے ہیں۔پارلیمنٹ بڑی با اختیار ہے،پارلیمنٹ تو سُپریم کورٹ کے فیصلہ کو بھی ختم کر سکتی ہے
مفتی تقی عثمانی نے وڈیو لنک کے ذریعے ترکیہ سے شرکت کی اور فیصلے کے دو پیراگراف، پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیراگراف 42 میں "تبلیغ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جو کہ غیر مشروط اجازت دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قادیانی فرقہ اقلیت میں ہے، لیکن وہ خود کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اس معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے تسلیم کیا کہ فیصلہ کرتے وقت تمام دستاویزات کا بغور جائزہ نہیں لیا جا سکا، اور علما کرام سے گزارش کی کہ وہ عدالت کی معاونت کریں تاکہ فیصلہ درست طور پر کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دینے کا مقصد ملک کی اسلامی شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے چیف جسٹس کی اس بات سے اتفاق کیا کہ فیصلے میں طے شدہ مسائل کے بجائے اصل مسئلے کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ انہوں نے پیراگراف 7 میں دی گئی مثال پر بھی اعتراض کیا کہ احمدیوں کو نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے کا تاثر ملتا ہے، جو کہ درست نہیں۔
سماعت کے دوران وقفے کے بعد صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے اپنے دلائل دیے اور کہا کہ فیصلے میں اہم معاملات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔