آدھے سے زیادہ پاکستانیوں کا فیس بک اور انسٹاگرام پر کوئی اکاؤنٹ نہیں:گیلپ پاکستان سروے
پاکستان میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے گیلپ پاکستان کا حالیہ سروے ایک دلچسپ تصویر پیش کرتا ہے۔ اس سروے کے مطابق تقریباً 50 سے 60 فیصد پاکستانیوں نے کبھی بھی سوشل میڈیا ایپس جیسے فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک پر اکاؤنٹ نہیں بنایا۔ اس سروے کے نتائج 28 جون سے 10 جولائی کے درمیان حاصل کیے گئے، جس میں 800 سے زائد افراد کی رائے شامل تھی۔
گیلپ پاکستان کے سروے میں یہ انکشاف ہوا کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا ایپس سے دور ہے۔ صرف 40 فیصد افراد نے بتایا کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں اور وہ ان ایپس کو باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، 50 سے 60 فیصد پاکستانی ان ایپس سے بالکل دور ہیں۔
عمر کے اعتبار سے سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی دلچسپ فرق دیکھنے کو ملا۔ 30 سال سے کم عمر کے 60 فیصد پاکستانی نوجوان سوشل میڈیا ایپس پر زیادہ فعال ہیں۔ جبکہ 30 سال سے زائد عمر کے افراد میں یہ شرح صرف 25 فیصد ہے۔
مرد و خواتین کے سوشل میڈیا استعمال کے رجحانات میں بھی فرق پایا گیا ہے۔ مردوں میں 45 فیصد جبکہ خواتین میں 35 فیصد نے فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک استعمال کرنے کا بتایا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین بھی سوشل میڈیا کے استعمال میں پیچھے نہیں ہیں۔
سروے کے نتائج کے مطابق، 22 فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے آن لائن دوستیاں بنائی ہیں۔ تاہم، 76 فیصد نے کہا کہ ان کی سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی آن لائن دوستی نہیں ہوئی۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال اور اس کے اثرات پر بھی غور کیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لائی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کی فراہمی اور لوگوں کے درمیان رابطے میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی کچھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں، جیسے کہ غلط معلومات کا پھیلاؤ اور لوگوں کی پرائیویسی کا مسئلہ۔
دیگر تحقیقاتی اداروں اور رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مختلف تعلیمی اور کاروباری ادارے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی خدمات اور مصنوعات کو مزید بہتر بنا سکیں۔
گیلپ پاکستان کے سروے کے یہ نتائج ملک میں سوشل میڈیا کے استعمال کی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف عام لوگوں بلکہ پالیسی میکرز کو بھی رہنمائی ملے گی کہ وہ سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر فیصلے کر سکیں۔