پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئینی آرٹیکلز کی معطلی ضروری، ججوں کا اختلافی نوٹ
مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ دونوں ججوں کا کہنا ہے کہ فیصلہ تاحال جاری نہ ہونے کی وجہ سے نظرثانی درخواست غیر موثر ہو سکتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ اکثریتی فیصلے کی بنیاد پر 80 ممبران اسمبلی نیا بیان حلفی نہیں دے سکتے۔ اگر ممبران اسمبلی ایسا کرتے ہیں تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کے آئینی ادارے آئین کے خلاف عدالت کا کوئی فیصلہ ماننے کے پابند نہیں ہیں۔
دونوں ججوں نے اپنے نوٹ میں کہا کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63، اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آرٹیکلز کی معطلی کے بغیر پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کے حوالے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔
جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلہ تاحال جاری نہ ہونے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فیصلے میں تاخیر سے نظرثانی درخواست غیر موثر ہو سکتی ہے، جس سے قانونی معاملات پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
دونوں ججوں کا کہنا ہے کہ آئینی ادارے آئین کے خلاف کسی بھی عدالتی فیصلے کو ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ممبران اسمبلی کو نئے بیان حلفی دینے کی صورت میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مخصوص نشستوں کے کیس میں پی ٹی آئی نے عدالت سے ریلیف کی درخواست کی تھی۔ تاہم، اکثریتی فیصلے کے باوجود جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے نوٹ میں آئینی نکات اور قانونی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کا اختلافی نوٹ قانونی معاملات میں مزید پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں عدالت کا حتمی فیصلہ اور آئینی اداروں کا ردعمل اہم ہو گا۔ دونوں ججوں نے اپنے نوٹ میں آئین کی حفاظت اور اس کی پابندی پر زور دیا ہے، جو کہ قانونی معاملات میں ایک اہم نکتہ ہے۔