لوگ گھروں کے کرائے سے زیادہ بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور
پاکستان میں مہنگے ترین پاور پلانٹس عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں، جس کا اندازہ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے ہوتا ہے۔ لوگ گھروں کے کرائے سے زیادہ بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
پاور پلانٹس سے کیے گئے بدترین معاہدوں کے نتیجے میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کی جانے والی کپیسٹی پیمنٹ کا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ کپیسٹی پیمنٹ وہ ادائیگی ہے جو بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے، تاکہ بجلی کی اضافی مانگ کی صورت میں فراہم کی جا سکے۔ یہ ادائیگیاں امریکی ڈالر میں کی جاتی ہیں، نہ کہ پاکستانی روپے میں۔
سابق وزیر تجارت گوہر اعجاز نے اپنے بیانات اور ایکس پیغامات کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا کہ حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے ملکی معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ملک میں موجود پانچ مہنگے ترین پاور پلانٹس کی تفصیل بیان کی ہے۔
1. روش پاور پلانٹ: 1999 میں قائم کیا گیا، 30 سال کی مدت کے لیے۔ یہ پاور پلانٹ 745 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کر رہا ہے۔
2. چائنا پاور حب: 350 روپے فی یونٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔
3. پورٹ قاسم الیکٹرک: 177 روپے فی یونٹ بجلی دے رہا ہے۔
4. صبا پاور: 1999 میں 30 سال کے لیے قائم کیا گیا، 117 روپے فی یونٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔
5. پاک جین: 95 روپے فی یونٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔
گوہر اعجاز نے انکشاف کیا کہ روش پاور پلانٹ کو 2024 کے ابتدائی تین ماہ (جنوری سے مارچ) میں بغیر کسی پیداوار کے 1.28 ارب روپے ادا کیے گئے۔ اسی طرح، چائنا پاور حب کو بغیر بجلی پیدا کیے 33 ارب روپے، پورٹ قاسم الیکٹرک کو 30 ارب روپے، پنجاب تھرمل پاور کو 10 ارب روپے، جامشورو پاور (جینکو ون) کو 93 کروڑ روپے، سیف پاور پروجیکٹ کو 67 کروڑ روپے، اور سیفائر الیکٹرک لمیٹڈ کو 59 کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار حسن ایوب نے کہا کہ جن لوگوں نے ایسے معاہدے کیے ہیں، انہیں کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔