5 جولائی کو عدالتیں کھلی ہوتیں تو ضیاء الحق منتخب وزیراعظم کو نہ ہٹا سکتا:جسٹس اطہر من اللہ
نیویارک: سپریم کورٹ کے جج، جسٹس اطہر من اللہ نے نیویارک بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی ملک میں مارشل لاء کا خطرہ ہو، عدالتوں کو کھلا رہنا چاہیے۔ انہوں نے ٹی وی چینل کا نام نہ لیتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کے وقت ایسا ماحول بنایا گیا جیسے مارشل لاء لگنے والا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کاش 5 جولائی کو عدالتیں کھلی ہوتیں جب ضیاء الحق نے منتخب وزیراعظم کو ہٹایا تھا اور کاش 12 اکتوبر 1999 کو بھی عدالتیں کھلی ہوتیں جب پرویز مشرف نے منتخب وزیراعظم کو نکالا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کی کوشش کی ہوتی، تو یہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا امتحان ہوتا کہ وہ آئین کی بالادستی کے لئے کھڑی ہوتی یا نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ایک نوٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد ان کے دو بیٹوں کا پرسنل ڈیٹا سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا، جو ایک سرکاری ادارے سے حاصل کیا گیا تھا۔ ان کی بیوی، جو سیاست سے دور تھیں، پر ایک ڈاکیومینٹری بنا کر حملہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک جج کی آزمائش ہوتی ہے اور ججوں کی آزادی کا امتحان ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2022 تک ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے لوگ اچانک تبدیل ہوگئے ہیں اور آج وہ لوگ پروپیگنڈا کر رہے ہیں جنہوں نے اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ سے فائدہ اٹھایا تھا۔ ان کے بقول، اس وقت ملک کی کوئی ہائیکورٹ انہیں ریلیف نہیں دے رہی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج کا اصل امتحان یہی ہے کہ عوام کا عدالت اور جج پر اعتماد بڑھایا جائے اور تنقید سے جج کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔