بنگلہ دیش میں احتجاجی مظاہرے زورپکڑگئے،جھڑپیں،ہولناک مناظر
ڈھاکہ:بنگلہ دیش میں طلباء کے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جس میں طلباء، حکومت کے حامیوں اور مسلح پولیس کے درمیان جھڑپوں نے عوام میں اشتعال پیدا کر دیاہےیہ احتجاج مظاہرے سرکاری نوکریوں کے کوٹہ نظام کیخلاف ہیں جسے مخالفین امتیازی قرار دیتے ہیں۔تشدد میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں جبکہ مظاہرین نے ڈنڈوں سے لیس ہو کر دارالحکومت ڈھاکہ اور دیگر شہروں کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپس میں ہنگامہ برپا کر دیا۔احتجاج میں شریک مظاہرین نے مبینہ طور پر آگ لگا دی جس کے بعد وہ بند ہو گیا۔
مظاہرین نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے جس سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کو بڑا چیلنج درپیش ہے۔حکام نے موبائل اور انٹرنیٹ سروسز منقطع کر دی ہیں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے، اور سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے حکام پر مظاہرین کے خلاف غیر قانونی طاقت کے استعمال کا الزام لگایا ہے
بنگلہ دیشی طلباء حکومت کے کوٹہ نظام کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کے تحت سرکاری ملازمتوں کا 56 فیصد مخصوص گروہوں کے لئے مخصوص ہے۔احتجاج کا آغاز یکم جولائی کو ڈھاکہ یونیورسٹی سے ہوا اور بعد میں دیگر کیمپس اور شہروں تک پھیل گیا۔
15 جولائی کو بنگلہ دیش چھاترا لیگ کے اراکین نے طلباء مظاہرین پر حملہ کیا جس کے بعد جھڑپیں بڑھ گئیں۔وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا اعلان کیا ہے اور مظاہرین سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے کی اپیل کی ہے۔امریکہ اور اقوام متحدہ نے تشدد کی مذمت کی ہے اور بنگلہ دیشی حکومت سے مظاہرین کے ساتھ ہمدردی کی اپیل کی ہے۔