مفت ناشتہ
خصوصی تحریر :ـبنتِ نور
خبر ہے کہ پنجاب حکومت 32 ہزار پرائمری سکولوں کے بچوں کو مفت ناشتہ دے گی۔ اس کا مقصد بچوں کی صحت بہتر بنانا ہے۔ غالب نے کہا تھا ’’ حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں…مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں‘‘۔اس وقت پاکستان کا پرائمری نظام تعلیم فرسودہ اوربے کار نظاموں کی فہرست میں سرفہرست ہے۔ ہزاروں پرائمری سکول پینے کے صاف پانی، بجلی، چاردیواری، ڈیسک اور اساتذہ کی کمی کا شکار ہیں۔ درجنوں سرویز موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے 5 ویں جماعت کا بچہ تیسری جماعت کے نصاب سے لاعلم ہے اور تیسری جماعت کا بچہ بنیادی قاعدے پر دسترس نہیں رکھتا۔ ریاضی، سائنس اور انگریزی کا حال تو بہت ہی پتلا ہے۔ جو حکومت بھی اقتدار سنبھالتی ہے دو اعلانات جاری کرنا گویا اس کے ایمان کا حصہ ہیں (1) پولیس کا قبلہ ٹھیک کرنا ہے اور دوسرا نظام تعلیم کو دنیا کا بہترین نظام بنانا ہے۔ کم و بیش 30سال سے یہ اعلانات ہم سن رہے ہیں مگر نتیجتاً وہی حکومت ان دونوں شعبوں میں لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کر کے رخصت ہوتی ہے۔
جب بھی کرپشن کا انڈیکس ترتیب پاتا ہے تو 3 محکموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے ریونیو، پولیس اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ۔ کبھی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ دوسرے نمبر پر آجاتا ہے اور کبھی پولیس، یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتاکہ تعلیم کے شعبے میں بھی کرپشن ہو سکتی ہے مگر ہمارے ہاں ایسا دھڑلے کے ساتھ ہورہا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ بچے کی اچھی صحت کے لئے وہ حکومت فکر مندی کا اظہار کررہی ہے جس نے بجلی، گیس کے بل 200 فیصد بڑھا دئیے ہیں۔ پٹرول کی قیمتیں 100فیصد تک بڑھا دیں اور لاکھوں خاندان بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد اپنا چولہا روشن نہیں کر سکتے۔ پچھلے دو سالوں میں غربت کی لکیر اتنی گہری ہو گئی ہے کہ 50 فیصد ملکی آبادی اب انتہائی غریب آبادی بن چکی ہے۔ بچے تو کیا بڑے بھی فاقوں کا شکار ہیں۔ حکومت کا نظام تعلیم کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک جاری ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک مزدور بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کا بچہ عقوبت خانہ نما سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرے۔ حکومتوں کی بیڈگورننس اور ناکامی کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر میں سکول کھمبیوں اور جنگلی گھاس کی طرح اُگے ہوئے ہیں، اگر سرکاری سکول اس قابل ہوتے تو والدین کبھی اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروانے پر مجبور نہ ہوتے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کا منافع خور طبقہ تعلیم کو ایک بہترین کاروبار سمجھتا ہے۔ 5 مرلے کا گھر کرائے پر لے کر آپ کہیں بھی علم فروشی شروع کر سکتے ہیں۔
اگر اتوار کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو پرائم سپیس پر سب سے زیادہ اشتہارات پرائیویٹ تعلیمی شعبہ کے ملیں گے۔ دوسرے نمبر پر رئیل سٹیٹ کا نمبر آتا ہے یعنی وہ ملک جہاں کاروبار تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر چھوٹی بڑی سینکڑوں کی تعداد میں انڈسٹری بند ہورہی ہے، نئے صنعتی یونٹ لگنا بند ہو چکے ہیں، کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں تعلیم کے شعبہ میں مہنگی ترین اشتہاری مہم کا چلنا اس بات کی ناقابل تردید گواہی ہے کہ علم فروشی آج بھی کاروبارنمبر ون ہے، شریف خاندان کا حکومت کرنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ یہ قومی دولت فینسی اور دکھاوے کے منصوبوں پر خرچ کرنا پسند کرتا ہے۔ پاکستان میں آج بھی لاکھوں کلو میٹر سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں مگر یہ موٹروے بنانا پسند کرتے ہیں۔
پنجاب کے 70 فیصد سے زائد لوگ ٹرانسپورٹ سے محروم ہیں مگر یہ تین، چار شہروں میں اربوں روپے کی لاگت سے مہنگی ترین جنگلا بسیں اور اورنج ٹرین پر ارب ہا روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔ یہ ہسپتالوں کی خوبصورت عمارتیں تعمیر کرتے ہیں مگر ان ہسپتالوں کے اندر سستے اور معیاری علاج کی سہولت اور مفت دوائیاں نہیں دیتے۔ تھانوں کی خوبصورت عمارتیں بنائیں گے مگر ان عمارتوں کے اندر انصاف ناپید ہو گا۔ اسی طرح سکولوں کی عمارتوں پر پیسہ پانی کی طرح بہائیں گے مگر وہاں تعلیم کے سوا باقی سب کچھ ملے گا۔ پنجاب کی حکومت سے درخواست ہے بچوں کو ناشتہ کروانے کی ذمہ داری ان کی مائوں کو ہی نبھانے دیں بس آپ اتنا کریں کہ ان مائوں کو سستی بجلی دیں، سستی گیس دیں، ان کو ناجائز منافع خوری اور مصنوعی مہنگائی سے بچائیں اگر یہ تین کام آپ نے کر دئیے تو آپ کو ناشتہ کروانے کی تکلیف سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کا سرکاری انفراسٹرکچر دنیا کا مانا ہوا کرپٹ ترین ہے۔
آج ہی صوبائی وزیر تعلیم نے فرمایا ہے کہ محکمہ صحت کے 5 سو کرپٹ ترین افسران اور اہلکاروں کی فہرستیں بنا لی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہسپتالوں کی دوائیاں بیچ کھاتے ہیں، مشینری مرمت کروانے کے نام پر کروڑوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ہسپتالوں کو ملنے والا ترقیاتی بجٹ خوردبرد کر لیتے ہیں۔ کوئی سرکاری شعبہ ایسا نہیں جو سر تا پا کرپشن میں نہ ڈوبا ہوا ہو۔ یہ بات دعویٰ سے کہی جاسکتی ہے کہ حکومت کا مفت ناشتہ بچوں تک نہیں پہنچے گا اور دودھ کا ڈبہ یا جوس اول تو ایکسپائر ہو گا پھر بھی دودھ اور جوس کے ڈبے محکمہ تعلیم کے افسروں کے بچوں اور ان کے غریب رشتہ داروں کا پیٹ بھریں گے اور اگر تھوڑی بہت مقدار سکول تک پہنچ گئی تو اس سکول کا ہیڈ ماسٹر اور اس کے ساتھی مل جل کر اس پر ہاتھ صاف کریں گے اور اگر علاقے کے لوگ مانیٹرنگ کے لئے تعینات کئے جائیں گے تو یقینا یہ ناشتے ان کے ڈیرے تک بھی جانا شروع ہو جائیں گے اور پنجاب کے خزانے پر صرف قرضے کا بوجھ بڑھے گا۔ سرکاری مال کو ہڑپ کرنا سرکاری افسر اور عوامی نمائندے شیرِ مادر سمجھتے ہیں۔ اب رہی بات کہ پنجاب حکومت اپنی پسندیدہ کمپنیوں کو نوازنا چاہتی ہے تو ان کے پاس اور بہت سارے طریقے ہیں وہ ان کو کسی اور طریقے سے نواز دیں اگر پنجاب حکومت کے دل میں غریب بچوں کا درد اٹھ ہی پڑا ہے تو بچوں کو کتابیں مفت دیں، سٹیشنری مفت دیں، پرائمری سکولوں میں اساتذہ کی کمی دور کریں۔ سکولوں کو پانی، بجلی، گیس چار دیواری دیں، اساتذہ کی ٹریننگ کروائیں اور سب سے بڑھ کر ان اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں میں لایا جائے جن کے غریب ماں باپ غربت کی وجہ سے انہیں سکولوں میں بھیجنے کی بجائے ورکشاپوں، ہوٹلوں میں بھیج دیتے ہیں۔