بنگلادیش: کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کا احتجاج شدت اختیار کرگیا، 32 افراد ہلاک
ڈھاکہ: بنگلادیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف جاری طلبہ کے احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 32 ہو گئی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسپتال ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں ہوئیں۔
بنگلادیشی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ مختلف شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں کے دوران آج ایک صحافی بھی ہلاک ہوا ہے۔ مزید یہ کہہ ہونے والی مختلف جھڑپوں میں 2500 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔
اسپتال ذرائع نے بتایا کہ 150 سے زیادہ طلبہ اور مظاہرین مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن میں سے زیادہ تر زخمیوں کی آنکھوں میں ربر کی گولیاں لگی ہیں۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق مظاہرین نے احتجاج کے دوران سرکاری ٹی وی کے ہیڈکوارٹرز کو آگ لگا دی، جس میں کئی لوگ محصور ہوگئے ہیں۔ حکومت نے پہلے مذاکرات سے انکار کیا تھا لیکن اب مذاکرات کا اعلان کیا ہے۔
یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب بنگلادیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دینے کے خلاف طلبہ احتجاج کر رہے تھے۔ ملک میں سرکاری ملازمتوں کا 56 فیصد حصہ کوٹے میں مختص ہے، جس میں سے 30 فیصد جنگ کے بچوں، 10 فیصد خواتین، اور 10 فیصد مخصوص اضلاع کے رہائشیوں کے لیے مختص ہے۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ سرکاری نوکریاں میرٹ پر دی جائیں اور صرف 6 فیصد کوٹہ اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے برقرار رکھا جائے۔
یاد رہے کہ 2018 میں بنگلادیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم ختم کر دیا گیا تھا، جس کے بعد بھی اسی طرح کے مظاہرے ہوئے تھے۔ گزشتہ ماہ ہائیکورٹ نے جنگ لڑنے والوں کے بچوں کے لیے 30 فیصد کوٹہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد یہ مظاہرے شروع ہوئے۔
بنگلال کی سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو چار ہفتوں کے لیے معطل کردیا ہے اور حکم جاری کیا ہے کہ اس معاملے پر چار ہفتوں بعد فیصلہ سنایا جائے گا۔ دوسری جانب بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ’رضاکار‘ قرار دیا، جو 1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔