اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ ہماری آبادی کتنی ہے؟ تو ہم بنا سوچے بتا دیں گئے کہ 25 کروڑ۔ یہ 25 کروڑ کا عدد ایک خطیر عدد ہے جس کو سنبھالنا انتہائی مشکل کام ہے، اسی 25 کروڑ میں تقریبا 60 فیصد آبادی میرے وطن عزیز میں صرف نوجوانوں کی ہے، جس کے باوجود ہم غریب ہیں۔ دُنیا میں ہیومن ریسورس بہت اہم ہوتا ہے اور ہم ہیومن ریسورس کے لحاظ سے ترقی یافتہ دنیا سے بہت آگے ہیں کیونکہ ہماری آبادی 25 کروڑ ہے، جس میں 60 فیصد نوجوان ہیں اسکے باوجود ہم غریب ہیں، کیا یہ واقعی حیران کن بات نہیں؟
کیا اس پر ہمیں اپنے آپکو کوسنا نہیں چاہیے۔ آخر ترقی یافتہ ممالک جن میں جاپان بھی شامل ہے اور ہم میں کیا فرق ہے، جس وجہ سے وہ سب ہم سے پچاس سال ترقی کی دوڑ میں آگے ہیں۔ کیا قدرت نے انہیں خصوصی زمین اور موسم دیے ہیں یا انہیں بڑا دماغ اور جسم دے کر دنیا میں بھیجا؟ اور کیا ہم قد، وزن اور دماغ میں ان سے چھوٹے ہیں۔ کیا ہمارے پاس وہی مٹی ، سورج اور موسم نہیں اگر ہم دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں تو منہ سے ہرگز انکار ہی نکلے گا بلکہ یہ اگر کہا جائے کہ قدرت نے ہمیں موسم، زمین، رقبے اور افرادی قوت کے لحاظ سے زیادہ نواز رکھا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ جاپان میں روزانہ زلزلے آتے ہیں۔ نیچے آتش فشاں بھی ہیں اور یہ کسی بھی وقت پورے ملک کو اڑا دیں گے، دوسرا یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دو ایٹم بم سہنے کے باوجود آج تک اپنی فوج نہیں بنائی، یہ آج بھی امریکہ کو ہر سال اپنی حفاظت کا کرایہ ادا کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ملک دنیا کی چوتھی اقتصادی طاقت ہے اسکے مالیاتی ذخائر 1117 بلین ڈالر ہیں اور یہ ہر سال 1500 بلین ڈالر کی تجارت کرتا ہے۔ جبکہ ہم ایک بلین ڈالر کے لئے زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟
کیونکہ جاپان آپنے پوٹینشل سے واقف ہے۔ جبکہ ہم اپنی طاقت سے آگاہ نہیں، اسی لئے ہم نے 25 کروڑ لوگوں کو بھکاری بنا دیا۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ جاپان اور یورپ میں گزارا ہے اور میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں جاپان جیسا کوئی دوسرا ملک نہیں۔ اگر ہم اپنے ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں کسی دوسرے ملک سے سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں بس جاپان کے ماڈل کو اپنے ملک میں نافذ العمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم دس پندرہ برسوں میں ترقی کی اس سڑک پر ہوں گے جس کے آخر پر جاپان بیٹھا ہے۔ جاپانی 1945 کے بعد کسی ملک سے نہیں لڑے۔ چین اور کوریا کے ساتھ انکے نظریاتی اور سرحدی تنازعے ضرور ہیں لیکن انہوں نے آج تک انکے ساتھ بھی تجارتی اور سفارتی تعلقات نہیں ٹوٹنے دیے، انکی سرحدیں انکے ساتھ بھی کھلی ہیں۔ جبکہ ہم 1947 کے بعد باہر اور اندر دونوں جگہوں پر لڑ رہے ہیں۔ ہم ہمسایوں سے بھی خوش نہیں اور نہ ہی اپنے آپ سے خوش ہیں۔
جاپانیوں نے ایک ہی بار ایٹم بم برداشت کر کے جتنا لڑنا تھا لڑ لیا آخر انکا اکتفا امن پر ہی ہوا، تو کیا اگر یہی کام ہم ایٹم بم چلانے سے پہلے کر لیں تو یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا؟ آج اگر ہم ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کر لیں اور لڑائی پر مکمل پابندی لگا دیں اور اس کے بعد قوم سازی اور معاشی ترقی پر توجہ دیں تو یقین جانئیے ملک بدل جائے گا۔