بارہ جماعتیں پاس کرنے کہ بعد زمان شاہ نے سکردو سے لاہور کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ زندہ دلان لاہور کی دھرتی پر قدم رکھتے ہی بہت سارے خوابوں نے انگڑائ لی اور پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کے جزبے نے شدت اختیار کی۔ تعلیمی میدان میں اپنا منفرد نام رکھنے والی جامعہ پنجاب کے شعبہ ابلاغیات نے کھلی باہوں سے زمان شاہ کا استقبال کیا۔ ڈیپارٹمنٹ میں قدم رکھتے ہی زمان شاو خود کو صحافی تسلیم کرنے لگے اور خیالی پلاؤ پکانے لگے کہ شعبۂ ابلاغیات سے ڈگری لینے کہ بعد کونسے چینل پر بطور صحافی خدمات سر انجام دیں گے۔ فیکلٹی میمبرز کے ہمراہ لائبریری، ریڈیو سٹیشن، پی یو ٹی وی، پروڈکشن ہاؤس،ایڈیٹینگ روم، کمپیوٹر لیب اور ڈرامیٹیک سوسائٹی کا وزٹ کرنے کہ بعد زمان شاہ خود کو ایک سیلیبرٹی کے طور پر دیکھنے لگے۔
وقت گزرنے کہ ساتھ ساتھ زمان شاہ پڑھتے گۓ اور شعبہ ابلاغیات میں پڑھاۓ جانے والے نصاب کا بغور جائزہ لیتے گۓ۔ پہلے چار سمسٹر انہیں ایچ ای سی کی پالیسی کے مطابق مائنر سبجیکٹس پڑھاۓ گۓ۔ زمان شاہ کو محسوس ہوا کہ انکے خواب کرچی کرچی ہو گۓ۔ وہ جس مقصد کہ تحت جامعہ میں آۓ تھے چار سال میں وہ مقصد پورا نہیں ہو سکے گا۔ وہ اپنا غصہ اور مایوسی نکالنے کے لیے ایک میگزین میں لکھنے لگے، انہوں نے اپنا پہلا کالم لکھا کہ یونیورسٹیاں صرف پیسے کا ضیاع ہیں، جامعات میں سے حاصل کی ہوئ ڈگریاں محفوظ مستقبل کی ضامن نہیں ہوتیں۔ سبز باغ اصل میں سوکھے پتے ہوتے ہیں۔ ہمیں یونی ورسٹیوں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ جدید دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا، میڈیا کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمارا کام عملی طور پر ہے نہ کہ ہر وقت پرانی کتابوں میں سر دیے رکھنا ہے۔ چونکہ وہ حقیقت کے قریب لکھتے اور بولتے تھے تو جلد ہی سوشل میڈیا پر مشہور ہو گۓ اور نوجوان نسل کی آواز بنے۔
زمان شاہ نے پاکستان میں پڑھنے والے تمام طلباء کو چند مشورے دیے کہ: اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ابھی آج سے ہی ذاتی حیثیت میں محنت کرنا شروع کر دیں۔ کیونکہ یونی ورسٹیوں کی ڈگریاں محفوظ مستقبل کی ضامن نہیں ہیں۔
مختلف زبانوں کے استعمال پر عبور حاصل کریں
معلوماتی کتابیں پڑھیں۔
سافٹ سکلز سیکھیں۔
سوشل میڈیا کی پاور کو استعمال کریں۔ اپنی مایوسی اور غصے کو انرجی کے طور پر استعمال کریں تاکہ آپ اپنے طےشدہ اہداف کو پہنچ سکیں۔ زمان شاہ اب ایک کامیاب ڈیجیٹل کونٹینٹ کری ایٹر ہیں۔ انکے مطابق سب سے زیادہ فالتو اور اضافی وقت یونیورسٹیوں کے طلباء کے پاس ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو ڈگری کے دوران ہی پیسہ کما کر مستقبل کی فکر سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ زمان شاہ کہتے ہیں کہ انکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہی یہ تھی کہ وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کسی اور کہ سبز باغ میں گھومتے ہوۓ تلاش کر رہے تھے۔ زمان شاہ کہتے ہیں آپ کسی پر منحصر نہ کریں، نا استاتذٔہ پر نا ہی ڈیپارٹمنٹ پر اور نا ہی حکومتی اداروں پر۔ جب آپ اکیلے کچھ حاصل کرنے کی جستجو کریں گے تو سب آپ کا ساتھ دیں گے مگر صرف تالیاں بجا کر ٹریک پر سیدھا اور تیز رفتار آپکو خود ہی دوڑنا ہو گا۔ اس لیے میڈیا اسٹڈیز کے طلباء کو جلد عملی فیلڈ کا تجربہ لینا چاہیے اور میڈیا کے طلباء ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ کسی چینل پر بیٹھ کر خبریں پڑھیں، صحافی بنیں یا رپورٹر بنیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپکا مستقبل ایک بہت وسیع فیلڈ ہے جہاں صحافت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے لہذا اپنے لیے مواقع خود پیدا کیجیے اور عالمی سطح پر خود کو منوائیں۔