بابا کہتے ہیں خوابوں کو جنون کی ہنڈیا میں ڈال کر یقین کے انگاروں پہ پکاو گے تو کامیابی کی مہک پورے شہر میں پھیلے گی ۔دلاسوں کی بیساکھیوں پہ چلنے والے کامیابیوں کے بازار میں رینگتے ہیں ۔ وہ بھی گوجرانوالہ کے ایک چھوٹے سے گاوں کی کچی پگڈنڈیوں پہ چلتے چلتے کبھی زندگی کی تلخیوں پہ رو دیا کرتا تھا تو کبھی زندگی کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا تھا ، میں تجھے بدلوں گا، لیکن ہر بار بے بسی کا ایک دریا اسے ہی پار کرنا پڑتا ۔ ڈر کی تاریک وادیوں سے نکل کر جنوں کے میدانوں کا سفر ابھی اسے شروع کرنا ہی تھا کہ زندگی نے ماں جیسا مسیحا چھین لیا ، وہ ماں جو بن بتائے دردوں کی دوا کرنا جانتی تھی ، وہ کوئی قطب ، ابدال ،قلندر تو نہیں تھی لیکن اس کی کرامات زندگی کے ہر موڑ پہ عیاں ہوتی تھی، وہ چہرے کی رنگت سے دل کی آنگن میں مچلتے خواب یا دم توڑتی خواہش کی خبر رکھتی تھی ، وہ بیک وقت استاد ، ڈاکٹر ، سائیکالوجسٹ، سب کچھ تھی ۔اس کے دل میں پنپتے ہر خواب تک رسائی رکھتی تھی ، اچانک یوں ہوا کہ وہ روٹھ کر چلی گئی ۔ اب اسے ماں کی جدائی کے ساتھ ساتھ معاشرے، سماج ، رسم و رواج اور اپنوں کے مکروہ رویوں کے ساتھ بھی لڑنا تھا ،کچھ وجوہات کی بنا پر باپ نے دوسری شادی کررکھی تھی، ان کے بھی بچے تھے، جس وجہ سے باپ کی توجہ بھی تقسیم ہوگئی ۔ ایسے مشکل حالات میں اسے زندگی کی داستاں لکھنی تھی دی ۔ اس دور تنہائی میں اس نے بغاوت کو چنا ، خوف سے بغاوت سستی و کاہلی سے کا بغاوت ، اسی باغیانہ پن نے اسے عظیم رستوں کا مسافر بنا دیا ، کامیابی کے شہر میں داخل ہونے سے قبل وہ بے حسی ، بے چینی ،غربت و افلاس اور بے یقینی کی دشوار سڑکوں کے آبلہ پا چلا ، اس نے طعنوں اور حقارتوں کے کہیں صحرا ننگے پاوں پار کیے ، رستے میں اس کا کئی مفرور سپاہیوں سے سامنا ہوا ، جو یقین کی لاٹھیاں توڑ کر مایوسی کی گود میں ہانپ رہے تھے ، اسے کئی اپاہجوں نے پکڑ کر سستانے بیٹھنے کے مشورہ دیا لیکن وہ کسی مجنوں کی طرح اب اپنی منزل کے عشق میں چل رہا تھا ، جنوں نے اسے دن رات کی تمیز کی طاقت سے محروم کر دیا ، اسے بس اب منزل کی جستجو میں چلنا تھا اور مسلسل چلنا تھا ، بس وہ چلتا رہا۔اسے شاید خود بھی خبر نہیں تھی کہ ٹاٹ کے سکولوں میں ، زمین پہ بیٹھنے والا یہ یہی لڑکا کسی روز فوجی شان و شوکت ، گیریزن کلب ، جیمنیزیم ، وی آئی پی پروٹوکول اور عسکری عیش و عشرت کے مزے لوٹے گا ۔
ابتدائی تعلیم میں کئی بار ایسی رکاوٹیں بھی آئی کہ سکول جانا ، اس کے اخراجات برداشت کرنا ایک خواب لگنے لگا ، لیکن جنوں نے ہمیشہ تھپکی تھی ، دوڑ اگر دوڑ نہیں سکتا تھا چل ، چلنے کی بھی سکت نہیں تو رینگنا شروع کر دے ۔ یہ دنیا جہاں خوبصورت ہے وہاں عجیب بھی ہے یہاں دوڑنے والے کو گرانے اور گرے ہوئے کو کچلنے کا بھی دستور ہے ، یہاں جنون کے دوش پہ اڑنے والے کو پاگل کہتے ہیں ،اسے بھی کئی شکستہ ذہنوں نے ڈرایا تھا کہ لیکن اس کی منزل ٹاٹ کے سکول سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج تک تھی ، رکنا وہاں بھی اس کے لیے جرم تھا اسے ابھی بہت آگے بڑھنا تھا ، اسے امریکہ برطانیہ متحدہ عرب امارات میں اعلی ترین عہدوں کی پیشکش ہونا تھی ، اسی کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر انٹرویو کے لیے منتخب کیا جانا تھا ۔شاید یہی جنون اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پار کرنے کے لیے کافی تھا ۔ کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر ان کا انتخاب ہونا نہ ہونا ایک اور بحث ہے ،یہاں قابلیت کے ساتھ باہمی تعلقات، لامختتم روابط ، مطلبی میل جول اور مفادات کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ تھانے دار کے لیے رشوت خور اور سیاست دان کے لیے ضمیر فروش ہونا ۔سید نور پاکستانی ایک باکمال فلم ڈائریکٹر ہیں ، کہتے ہیں مجھے ستارہ امتیاز ملا ہے لیکن میں بجلی کا بل خود لائن میں کھڑا ہو کر ادا کرتا ہوں، سنبھالیے اپنا ستارہ امتیاز، یا تو ستارہ امتیاز کو کچھ عزت دیجیئے یا اسے جسے آپ یہ اعزاز دیتے ہیں ، میرے ملک کے ہر دانشور کو وفاداری کا مرض لاحق ہے ، اسے بھی تھا آرمی سے بریگیڈئیر ریٹائر ہونے کے بعد وہ بھی کینیڈا ،امریکہ برطانیہ میں جا کر اپنی باقی زندگی کے مزے لوٹ سکتا تھا لیکن اسے وفاداری کا نشہ ملک واپس کھینچ لایا ۔ بابا اکثر کہتے ہیں کہ ہوا پانی اور آکسیجن کتنے اہم ہیں ان کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب موجود نہیں ہوتے ، سانسیں تھم جاتی ہیں، دھڑکنیں رک جاتی ہے ، منزلیں ٹھہر جاتی ہیں ، جینا دشوار ہو جاتا ہے ، خواب خاکستر ہو جاتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ ہمارے اردگرد ہمارے قریب تر ہوا پانی اور آکسیجن کی طرح موجود ہوتے ہیں اور ہم کبھی ان کی قدر ،ان کی عظمت اور ان کی خدمات کو سمجھ ہی نہیں پاتے ، وہ کسی شعبے ، کسی فریضہ کی تکمیل میں خود کو صرف کر رہے ہوتے ہیں ۔میں گھر میں جب بھی کوئی اچھی تحریر لکھوں، بابا داد دیتے ہیں اور فیصل ایاز صاحب (بھائی ) حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ بھائی کس کام میں پڑے ہو ،تمھارے ملک میں ادیب سے زیادہ ویلیو ٹک ٹاکر کی ہےجو ڈنکے کی چوٹ پہ فضول بولتا ہے اور دنیا عش عش کرتی ہیں۔ آپ جیسے لوگوں کو یورپ میں پیدا ہونا چاہیے۔
جہاں لکھاری کی قدر ہے ،جہاں اتنے دانشور رل گئے تم بھی دل جاو گے ۔ بریگیڈیئر صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔پنجاب یونیورسٹی کے اردو ڈپارٹمنٹ میں انہیں ڈاکٹریٹ کے ممتحن کے طور پر ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب کی طرف سے بلوایا گیا۔ جب اس کی تصویب کے لیے اجلاس ہوا تو صدر نے فرمایا کہ ہم نے بریگیڈئیر صاحب سے رابطہ کیا تھا تو انھوں نے جواب میں فرمایا ہے کہ میں تو صرف ایک ایم۔بی۔بی ۔ایس ڈاکٹر ہوں ۔سو وہ پی ۔ایچ ۔ ڈی کیا ایم ۔ اے بھی نہیں ہیں وہ کیا ممتحن بنیں گے ۔ کسی نے پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ اس میں کتنی سچائی ہے ۔ کبھی کبھی مفادات و ذاتیات کی بھٹی میں جلتے ہوئے ایسی خبریں بھی اڑائی جاتی ہیں کہ جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا ۔حتی کہ انہوں نے اسی ادارے سے انیس سو ستر میں فاضل فارسی اور انیس سو اکہتر میں ایم اے اردو کیا ۔ ایم ۔ اے فارسی میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے جنرل ضیاء کی موجودگی میں کانووکیشن منعقدہ میں نصیرالدین اوڈائر کے ناموں کا تاریخی طلائی تمغہ وصل کیا تھا۔ فارسی میں پی ۔ایچ ۔ڈی کا سفر انیس سو اننانوے میں تمام ہوا جب انہیں پنجاب یونیورسٹی کے کانووکیشن میں باقاعدہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا ہوئی تھی ۔اسی خواب کی تکمیل کے لیے انہوں نے تہران ،مشہد ، اصفہان ، تبریز اور اصفہان کی ایرانی یونیورسٹیوں کی بھی خاک چھانی ۔ ان کے ساتھ یہ پہلا حادثہ نہیں تھا ، انہیں پہلے بھی کئی بار کبھی فوجی کہہ کر ،کبھی میڈیکل ڈاکٹر کہہ کر اہل ادب اپنی محافل سے اٹھا دیاگیا تھا ، سترہ کتابیں لکھ لینے کے بعد آج بھی کچھ صاحب قلم اپنی دستاریں اونچی کرنے کی جستجو میں جملے کس لیتے ہیں یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکا اس کی چنگاری نے آرمی زندگی اور اس کی ترقیوں کے راستے میں روڑے اٹکائے ۔ فوج میں اعلی ترقی کےلیے باری آئی تو ان کی فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو نفی انداز میں پیش کیا گیا اور باقی اعلی ترین مقامی اور برطانوی اسناد کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا ۔
پاکستان میں اگر آپ صرف ادیب ہیں تو بھوک سے مر جائیں گے اور اگر ساتھ کوئی اور جاب کرتے ہیں تو لوگوں کے طعنے مار دیں گے ۔ بریگیڈئیر صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جنہوں نے انہیں صرف وردی میں دیکھا وہ انہیں سول لباس میں نہیں پہچان نہیں پہچانتے ۔ ان کی انفرادیت کے باوجود ان کے ادبی کام کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا ۔ کافی عرصے تک وہ واحد میڈیکل وائر ولوجسٹ رہے ۔ کئی دفعہ مختلف شہروں سے ان کے پاس وائرل امراض میں مبتلا سول بیمار خصوصاً بچے انہیں یونیفارم میں دیکھ کر ڈاکٹر ماننے سے انکار کر دیتے تھے۔وہ بچوں کی معصومیت پہ مسکرا دیتے ، لیکن کئی بار انہیں ادبی محافل میں نیچا دکھانے کےلیےاہل ادب وفضل و دانش انہیں فزیشین کہہ دیا اور کبھی کبھار محض فوجی کہہ کر اپنی ادنی سوچ کا اظہار کیا گیا ۔ ایک بار انہیں لاہور ڈیفنس کلب میں مدعو کیا گیا ۔ ایک بظاہر معززمگر لاعلم خاتون علامہ اقبال کی تعلیمات کے ضمن میں منعقدہ ایک سیمینار میں ان کی تقریر کے بعد بصد حیرت پوچھنے لگی کیا آپ اصلی والے بریگیڈئیر تھے ؟ بریگیڈئیر صاحب نے پوچھا کہ کیا نقلی والے بریگیڈئیر بھی ہوتے ہیں، کہنے لگی میرا مطلب تھاڈاکٹر والے بریگیڈئیر ۔ اس عورت کی لہجے و رویے سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ ڈیفنس میں رہنے کے لیے دانشور ہونے کی نہیں امیر ہونے کی ضرورت ہے ، وہ امیری آپ نے ضمیر بیچ کر حاصل کی ہو یا زمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
میری بریگیڈ سے ملاقات پہلے بھی کئی بار ہو چکی تھی لیکن اب کی بار اپنے سی ای او کاشف شہزاد صاحب کی مشاورت سے ان کا انٹرویو کرنے کے لیے ان سے ملنے گیا۔ ان میں بریگیڈیئرز والی کوئی بھی میں ، انا، یا پھر چوہدراہٹ نہیں تھی ، ہم نے انہیں چھ بجے کا ٹائم دیا لیکن ہم لوگ ٹریفک میں پھنس گئے ، ہمارے ڈرائیور فیصل صاحب کہتے ہیں فوجی آدمی ہے پتا نہیں کیا کہیں گے ، ڈرتے ڈرتے وہاں پہنچے ، لیکن ان کے ماتھے پہ ایک سلوٹ بھی دکھائی نہیں دی ، باہر روڑ پہ کھڑے ہمارا انتظار کر رہے تھے ، خندہ پیشانی سے ملے ، یہ وہ ہی بریگیڈیئر وحید الزماں طارق بریگیڈئیر صاحب، جو پنجاب یونیورسٹی ریڈیو میں میرے پروگرام میں آئے تھے تو دو منٹ لیٹ ہو پہ انہوں نے میری پوری ٹیم سے معذرت کی تھی اور میں دو گھنٹے لیٹ ہونے کے باوجود ان کے سامنے سینہ تان کے کھڑا تھا کہ فیصل صاحب ، کمیرا مین مقبول صاحب نے اور ان کی ہمت سے میں نے بھی بریگیڈیئر صاحب سے معذرت کی ۔ یوں پروفیسر ڈاکٹر بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحید الزماں طارق کے ساتھ یہ خوبصورت ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی ، مجھے لگتا تھا کہ بریگیڈئیر صاحب شریف النفس انسان ہیں لیکن اس کا یقین اس وقت ہوا جب انٹرویو ختم ہونے کے بعد ان کی اہلیہ کی کال آئی ، جس شرافت اور تحمل سے انہوں نے جواب دیا ، اس سے میرے جیسا کم فہم بھی جان سکتا ہے کہ وہ ایک اچھے اور شریف انسان ہیں ، مجھے یاد پڑھنا ہے میں اپنے ماموں پروفیسر خضر حیات جتوئی کے ڈیرے پہ بیٹھا تھا جب پنچایت میں بابے نورے نے ایک بات کی کہ یاد رکھو صرف شریف آدمی ہی بیوی سے ڈرتا ہے ۔ انٹرویو کے بعد بریگیڈئیر صاحب نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا ، انہوں نے اپنی کتاب دی اور ہمیں دروازے تک چھوڑنے آئے ، اس دوران انہوں نے کئی بار میرا شکریہ ادا کیا ۔ یوں یادوں کی الماریوں میں ایک اور لمحہ امر ہو گیا ۔ ہم بے فیض لوگ ہیں ہم نے ہمیشہ اپنے ستاروں کی قدر ان کے جانے کی بعد کی ہے ۔