میرے گاؤں میں میرا گھر مسجد کے بالکل ساتھ ہے، اسطرح کہ گھر کے ساتھ بنے ہوئے ڈیرے میں مسجد کی محراب واقع ہے۔ یعنی گھر مسجد کی مغرب میں ہے۔ مسجد کے مشرق میں یعنی دروازے والی طرف دروازے کے سامنے بچپن میں ایک بھٹی ہوا کرتی تھی جہاں ایک مائی دانے بھون کر دیا کرتی تھی۔۔۔
ہمیں کبھی مائی کا اصل نام تو معلوم نہیں ہوسکا لیکن سب بڑے اسے ‘نین’ کہتے تھے، گاؤں کے غریب گھرانے کی عورت تھی دانے اور چنے بھوننے کے علاوہ شادی بیاہ یا فوتگی والے گھر میں وہ برتن دھوتی تھی۔ شادی کے دوران دولہے یا دلہن کے سر سے واری جانے والی ‘ویلیں’ اسے ہی ملا کرتی تھیں اور اس دن وہ مجھے دنیا کی امیر ترین عورت لگتی تھی کیونکہ اس کے پاس پانچ، دس اور سو والے نئے کڑکتے نوٹ ہوتے تھے، جس طرح میں آج بھی لوگوں کا باطن جانے بغیر ظاہر پر یقین کرلیتا ہوں ویسے ہی مجھے تب بھی یقین تھا کہ وہ میلے کپڑے پہنے ہاتھوں میں نئے کڑکتے نوٹ پکڑے عورت بہت امیر ہے۔ ہمارے گھروں میں کوئی عورت بیمار ہوتی تو مائی ان کو دبانے اور مالش کرنے آتی تھی اور اگر کسی کا گلا خراب ہوجاتا تو وہ لکڑیوں کے چولہے سے راکھ لے کر اپنی گندی انگلی سے گلے کے اندر وہ راکھ لگایا کرتی تھی جس سے ہم ٹھیک بھی ہوجاتے تھے، اسے پرانے کپڑے اور کبھی کبھار پیسے بھی دیے جاتے تھے۔
جب ہمارے گھر اور تایا اور چچا کے گھر کٹائی کے بعد گندم آتی تو انہیں گندم دی جاتی تھی، ہماری زبان میں اسے ‘سیپی’ کہتے ہیں جو کہ روایت کے مطابق ہر خاندان کے ‘کمّی’ کو دی جاتی ہے۔
مجھے مائی ‘نین’ بہت فیسینیٹ کرتی تھی، اس کی عمر تب 50 سے اوپر ہوگی جب کہ میں دوسری یا تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اکثر میری دادی جن کو ہم ‘بی بی جی’ کہتے تھے مجھے نین کی بھٹی پر لے جاتیں اور ہم ساتھ چنے اور گندم کے دانے لے کر جاتے، مائی چنے اور دانے ہمیں بھون دیتی اور کچھ گندم اپنے پاس اجرت کے طور پر رکھ لیتی جسے ‘بھاڑا’ کہا جاتا تھا۔
نین کے کپڑے ہمیشہ میلے ہوتے اور ہمیشہ اس کے جسم سے پسینے کی اک ناگوار سی بو اٹھ رہی ہوتی تھی اسکا رنگ کالا سیاہ تھا اور چہرے کے نقوش بھی بدنما سے تھے لیکن مجھے ہمیشہ مائی کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی کیونکہ میں نے ہمیشہ اسے امیر دیکھا تھا، ہمیشہ اسے کچھ دیا ہی جاتا تھا اور وہ دھڑلے سے کپڑے، گندم اور پیسے مانگ بھی لیتی تھی۔
لیکن ایک دن نین مرگئی۔
میں پہلی بار اپنی مرضی سے کسی کے جنازے پر گیا اور وہاں میں نے دیکھا کہ مشکل سے پچاس ساٹھ لوگ ہوں گے وہ بھی نین کی طرح کے ہی میلے کپڑوں والے اس کے رشتہ دار تھے۔ تب مجھے کچھ کھٹکا تھا لیکن میں سمجھ نہ سکا۔
چند سال بعد میری بی بی جی فوت ہوگئیں اور تب میں ذمہ داری سے انکے جنازے کے ساتھ گیا کیونکہ تب تک میں مذہب اور معاشرے کی ضرورتوں کو سمجھنے لگا تھا۔ تب میں نے دیکھا ایک اور منظر، بی بی جی کے جنازے میں کوئی دو ہزار سے زیادہ لوگ آئے تھے یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ پھر میں اس پر سوچتا رہا تو مجھے سمجھ آئی کہ میری دادی خود بھی گاؤں کی بڑی اور معزز خاتون تھیں اور ‘کمّیوں’ کو روٹی، گندم اور پیسے دیا کرتی تھیں جبکہ ان کے چاروں بیٹے بھی علاقے کے چوہدری لوگ تھے اور ان کو بھی کبھی کسی سے کچھ لیتے نہیں دیکھا تھا میں نے، بلکہ ہمیشہ لوگوں کو چیزیں فراہم کرتے دیکھا۔
تب مجھے ادراک ہوا کہ لوگ، معاشرہ اور زمانہ صرف ان لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جنکا ہاتھ اوپر والا ہو دینے والا نہ کہ لینے والا۔
اور جو میں کہنے لگا ہوں اس کے بارے میں آنے والے لوگ کہا کریں گے کہ ‘کہا جاتا ہے ہاتھ ہمیشہ اوپر والا رکھو نیچے والا نہیں’۔ میں خود تاحال نیچے ہاتھ والوں کی صف میں کھڑا ہوں، تصویر کی دوسری جانب جانے کی کوشش جاری ہے۔
عثمان خادم کمبوہ