لاہور، پاکستان کے دل میں، جہاں ہلچل مچانے والی سڑکیں بریانی کی میٹھی خوشبو اور قوالی کی موسیقی گونجتی رہتی ہے میں ایک ایسی محبت کی کہانی شروع ہوئی جو تقریباً ایک دہائی پر محیط ہوہے۔
عامر، ایک باصلاحیت نوجوان فنکار، اور سارہ، ایک ڈاکٹر تھی۔ انکی پہلئ ملاقات خوبصورت شالیمار باغ میں ہوئی۔ ان کی محبت ایک کھلتی چمیلی صبح کی طرح خوشبودار اور نازک تھی۔ عامر ایک آزاد روح تھا، جو پینٹ برش کے ساتھ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے لیے جانا جاتا تھا، جب کہ سارہ رحمدلی کا مظہر تھی، ہمدردی سے بھرے دل کے ساتھ بیماروں اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
جیسے جیسے ان کی محبت پروان چڑھتی گئی، وہ ایک دوجے کیلئے لازم و ملزوم ہوتے گئے۔ وہ کبھی اناکر کلی تو کبھی کسی پارک میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے گھومتے رہتے اور ہر لمحے کا مزہ لیتے تھے۔وہ خواب دیکھتے تھے کہ عامر ایک روز شہر کے پرفتن فن تعمیر کا خاکہ بنائے گا جو صدیوں تک یاد رکھا جائے ، جب کہ سارہ ان مریضوں کی کہانیاں سنے گی جن کی وہ دیکھ بھال کرتی تھی، وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی تھی کہ اسے عامر کی محبت ملی تھی۔
لیکن قسمت اور زندگی بڑی ظالم شے ہے، ایک خوفناک شام، جب عامر سارہ کو اس کے گھر چھوڑ کر واپس آرہا ھا تو ایک گاڑی عامر سے ٹکرا گئی اور اسے شدید زخمی کر دیا۔ اس کی چوٹیں صرف جسمانی نہیں تھیں۔ وہ جذباتی طور پر بھی شدید زخمی ہو گیا تھا۔ وہ اس سوچ کو برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ سارہ ایک معذور فنکار کی دیکھ بھال کے لیے اپنی خوشیوں کو قربان کر دے۔ مایوسی کے عالم میں عامر نے لاہور چھوڑنے کا فیصلہ کیا، اپنی زندگی کی محبت کو پیچھے چھوڑ کر اسے اپنے درد سے بوجھل مستقبل سے بچانے کے لیے وہ ایک چھوٹے سے شہر میں جا کر بس گیا۔
سارہ کا دل اداس تھا۔ اس نے ہفتوں تک عامر کو تلاش کیا، ہسپتالوں میں ڈھونڈا، فنکاروں کے اڈوں کی کاک چھانی اور دوستوں اور خاندان والوں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس اس کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی سراغ ہے۔ لیکن عامر نے اپنی منزل کا کوئی نشان نہیں چھوڑا تھا، اور لگتا تھا کہ وہ اس کی زندگی سے بالکل غائب ہو گیا ہے۔
اسے ڈھونڈنے کے لیے پرعزم، سارہ نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اپنی زندگی کے اگلے نو سال تلاش کے لیے وقف کر دیے۔ وہ اپنے کیرئیر کو جاری رکھتے ہوئے لاہور کے ہلچل سے بھرپور الحمرہ میں چلی جاتی اور اکثر ان جگہوں کا دورہ کرتی رہتی جہاں انہوں نے کبھی ایک ساتھ وقت گزاراتھا، اس امید پر کہ شاید وہ کبھی اسے نظر آجائے۔ اس کا دل عامر کے لیے دکھ رہا تھا، اور اس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ ان کی محبت ختم ہو گئی ہے۔
پھر نویں سال سندھ میں بہت سیلاب آیا اور ہر شے ڈوب گئی، لوگ بےگھر ہو گئے۔ سارہ ان لوگوں کی مدد کرنے ڈاکٹرز کی ایک ٹیم کے ہمراہ پنوں عاقل کے علاقے میں گئی۔ وہ سارا سارا دن مریضوں کا علاج کرتے گزارتی۔ ایک روز اس کا گزر ایک بازار سے ہوا جہاں چند دکانیں بچ گئیں تھیں۔ وہیں ایک چھوٹی سی عجیب قسم کی آرٹ کی دکان تھی ، سارا یونہی اس کے اندر چلی گئی ۔سارہ نے دیوار پر ایک مانوس پینٹنگ دیکھی۔ یہ عامر کا سگنیچر اسٹائل تھا، اس پینٹنگ میں لاہور شہر کو دکھایاگیا تھا اور وہ وہ بلاشہ ایک شاہکار تھا۔ امید اور خوف سے کانپتے ہوئے اس نے دکاندار بزرگ سےمصور کے بارے میں دریافت کیا۔
دکاندار نے اسے بتایا کہ ایک معزور نوجوان ہے جو ایسی پیٹنگز بناتا ہے، میں یہ پیٹنگز بیچ دیتا ہوں اور جو کچھ پیسے ملتے ہیں اس میں سے کچھ حصہ میں اسے دے دیتا ہوں، وہ میرے گھر کے ہی ایک کمرے مین رہتا ہے اور اسکا کوئی نہیں ہے۔ سارہ نے نام پوچھا تو دکاندار نے کہاعامر نام ہے۔ سارہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ بزرگ سے کہہ کر ان کے گھر پہنچ گئی۔
عامر حیران رہ گیا جب اسے سارہ اس کی دہلیز پر دکھائی دی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنی زندگی کے ساتھ آگے بڑھ چکی ہو گی اور اسے بھول گئی ہو گی۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا۔ عامر نے اعتراف کیا کہ وہ اس لیے بھاگ آیا تھا تاکہ سارہ زندگی کی ساری خوشیاں جی سکے، سارہ نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا عامر میری خوشی ہی تم ہو اور تم ہی میری زندگی ہو۔
وہ عامر کو واپس لاہور لے آئی اور آتے ہوئے اس شاہکار پینٹنگ کو بھی دکاندار سے خرید لائی۔ عامر اور سارا کو گزرے تین سال بیت گئے اور آج عامر کی اس پینٹنگ کو شہر کے ٹاؤن ہال میں سجایا گیا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ یہ لاہور کی پینٹنگ نہیں بلکہ یہ محبت کی تصویر ہے۔