کیا آپ سلطان رکن الدین بیبرس کو جانتے ہیں؟؟؟کیا اس کی لازوال فتوحات کا آپ کو علم ہے؟؟؟ اس بندے کے کارنامے اموی، عباسی،فاطمی،صفوی اور عثمانی خلفاء سے کہیں زیادہ ہیں۔ مگر افسوس کے مملوک و غلام ہونے کی وجہ سے تاریخ دانوں نے انہیں کوئی مقام ہی نہیں دیا ۔تاریخ دان بھی آخر کیسے شامل کرتے غلام کے قصے اپنی کتابوں میں؟ انہیں اپنی خلاف مخالفت کا خوف تھا اور برتری کا زعم بھی تھا کہ ایک غلام کیوں ہمارے برابر آئے ۔ ہر دور کے مؤرخین نے حکمرانوں کی چاپلوسی کی ہے۔ رکن الدین بیبرس کو سلطان صلاح الدین کے بعد مصر کے سلاطین میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے اس کے دور میں بہ یک وقت مشرق کی سمت سے منگول مصر پہ حملہ آور تھے اور مغرب سے صلیبی افواج کا زور دار حملہ جاری تھا۔
مگر اس نے دونوں سمتوں میں دشمنوں کو نہ صرف روکا بلکہ پے در پے ایسی شکستیں دیں کہ دونوں کے قدم اکھاڑ دئیے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رات کو ایک محاذ پہ لڑ رہا ہوتا تھا اور صبح دوسرے محاذ پہ آدھمکتا تھا۔ دشمن اس کو "جن” سمجھتے تھے۔ اس کی تلوار سے تاتاری تائب ہو کہ دھڑا دھڑ مسلمان ہوئے تھے ۔ اس نے ہلاکو کے کزن برکے خان سے اتحاد کر کے تاتاریوں کے قدم اکھاڑے تھے، جنگ دریلس میں برکے خان کا کردار بھی ہے۔ برکے خان کی جانب سے مسلمان ہو کر مسلمانوں سے اتحاد کر کے اپنے ہی تاتاریوں کے خلاف اعلان جہاد پہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ:
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
رکن الدین بیبرس کے معرکۂ "عین جالوت” میں منگولوں کی تباہی نے تاریخ کا رخ مکمل طور پر بدل دیا۔ عین جالوت ہی وہ معرکہ تھا جہاں سے منگولوں کے بارے میں بھرم ٹوٹ گیا کہ وہ ناقابل شکست ہیں۔ اسلامی مؤرخین کی روایت کے مطابق تاتاریت اسلام کا تعاقب کرنے والا سب سے بڑا فتنہ تھا جس کو بیبرس نے دھول چٹائی۔
رکن الدین بیبرس نے صلیبی جنگوں کا اختتام کیا۔ اسی غلام زادے نے سپاہ سالار بن کر نویں صلیبی جنگ میں فرانسیسی شہنشاہ لوئی نہم کو ایسی شکست سے دوچار کیا کہ یورپ کو پھر کبھی براہ راست اسلامی دنیا پر صلیبی جنگ مسلط کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اس کے بعد وہ فریب دھوکہ اور سازشوں سے کام چلاتے ہیں اور خوب کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
رکن الدین بیبرس نے ہی برقائی خان کی مدد سے باطنی فرقہ کو فیصلہ کن شکست دی تھی جو دو سو سال تک مسلمان حاکموں کی ناک میں دم کیے ہوئے تھے، جنہوں نے درجنوں مسلمان بادشاہ اور ورزاء قتل کئے، گویا قلعہ الموت کو نیست نابود کردیا۔ رکن الدین بیبرس کی ہی کوششوں سے چنگیز خان کے پوتے برقائی خان نے اسلام قبول کیا اور پھربیبرس نے برقائی خان سے ملکر ہلاکو خان کوکچل دیا، جس کے بل پر اگلے چھ سو سال تک خلافتیں زندہ رہیں۔
رکن الدین بیبرس کی جنگی چالوں کے بارے میں پڑھیں تو معلوما ہوتا ہے کہ وہ الپ ارسلان ، سلطان ایوبی، نور الدین زنگی اور سلطان محمد فاتح کے برابر کا سپہ سالار تھا ، اس کے جاسوسی کے نظام کے بارے پڑھیں تو صلیبی مورخ لکھتے ہیں رکن الدین بیبرس انسان نہیں کوئی اور ہی مخلوق تھا جو بیک وقت کئی محاذوں اور کئی جگہوں پر موجود ہوتا تھا۔ لیکن چونکہ وہ ایک غلام کا بیٹا تھا اور اپنی محنت اور بہادری سے اس مقام پر پہنچا تھا اس لیے تاریخ دانوں نے اسے اسکا مقام نہیں دیا۔
بیبرس جب امراء سے تاتاریوں کو شکست دینے کی بات کرتا تھا تو لوگ اس کا مزاق اڑاتے تھے لیکن پھر اس نے ایک بار تاتاری سفیروں کو قتل کر کے جنگ کو خود پر مسلط کیا اور پھر میدان جنگ میں تاتاریوں کی ہی جنگی حکمت عملی ان پر الٹ کر انہیں پہلی شکست سے دوچار کر کے ان کے ناقابل شکست ہونے کا سحر ختم کر دیا۔ تاریخ دانوں نے واقعی انہیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ غلازم زادے تھے ان کی اولاد نے حکمرانی نہیں کی ۔