مارشل مک لوہان کی پیش گوئی کے مطابق ایک وقت ایسا آئے گا کہ پوری دُنیا ایک گاوّں میں تبدیل ہو جائے گی، انسانوں کے بولنے کا انداز، عمل اور ردِ عمل بدل جائے گا۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو موجودہ دور میں ابلاغ و ذرائع مواصلات کی بدولت دُنیا نے گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر لی ہے اور یہ انقلاب میڈیا کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ دُنیا کے کسی بھی خطے میں کچھ بھی ہو پلک جھپکتے ہی روئے زمین کا ہر شخص اس سے آگاہ ہو جاتا ہے جب کہ ماضی میں یہ سوچ عُبث تھی۔
وقت کے ساتھ یہ دُنیا سمٹ کر انسان کی دسترس میں آگئی کہ محض ہاتھ کی ایک جُنبش سے دُنیا کے کسی بھی خطے یا علاقے کے حالات حاضرہ سے آگاہ ہوا جا سکتا ہے۔ گزرتا وقت اس مسلمہ حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر میڈیا ایک ایسے طاقتور میڈیم کا درجہ حاصل کر چکا ہے کہ اب ممالک کے درمیان عسکری فوجی میدان میں ہی نہیں بلکہ میڈیا کی بدولت ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی معرکہ آزمائی ہو رہی ہے۔ چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا۔ یہ ذرائع ابلاغ کسی بھی ملک کی معاشرتی، ثقافتی، مذہبی اور جمالیاتی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں وہیں اسکی سالمیت اور وقار اور دفاع میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ہونے کی حیثیت سے کیا واقعی پاکستانی میڈیا اپنے اعلیٰ مقام کی پاسداری کر رہا ہے؟ ہمارے ڈرامے تفریحی پروگرام کیا ہماری ثقافت اور معاشرتی و مذہبی اقدار کی پاسداری کرتے ہیں؟ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ہمارے چینلز سے نشر کئے جانے والے ڈراموں کے ذریعے مغربی اور ہندو کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمارے ڈرامے شادی، طلاق اور ہلالہ کا غلط تصور پیش کر رہے ہیں اور مخلوط میل جول دکھا رہے ہیں جو سراسر ہمارے مذہبی اور سماجی اقدار کے منافی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر رفتہ رفتہ بے باکی بڑھتی جا رہی ہے اگر جلد ہی اسکا تدارک نہ کیا گیا تو صورتِ حال شدت اختیار کر سکتی ہے۔
سوشل میڈیا باہمی رابطے کا موّثر ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسکے بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اب سوشل میڈیا لوگوں کو بدنام کرنے، بے بنیاد اور من گھرٹ خبریں پھیلانے، پروپیگنڈہ کرنے اور بیہودہ اور نامناسب تصاویر اور ویڈیوز کی تشہیر کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسکے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پروان چڑھ رہی ہے، جہاں یہ فروعی مسائل، باہمی انتشار کا باعث ہے وہیں ازدواجی زندگی اور رشتے میں دراڑ کا موجب بھی ہے۔ لوگ سوشل میڈیا میں اتنے مگن ہیں کہ ان کے پاس اپنے قریبی رشتوں کے لئے وقت نہیں۔
ایسے میں ضروری ہے کہ متعلقہ حکام اعلیٰ حکومتی ادارے چیک اینڈ بیلنس کا موّثر نظام ترتیب دے کر میڈیا کو فعال اور بہتر بنا سکتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا ایسے پروگرام نشر کرے جو ہماری ثقافت، تہذیب و تمدن، معاشرتی و مذہبی اقدار کے عکاس ہوں۔ صحت مندانہ یوتھ پروگرام مرتب کئے جائیں جن سے نوجوان نسل کی تربیت ہو۔ میڈیا فورمز پر فروعی مسائل اور باہمی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اپنی ثقافت، زبان کی ترویج کے فروغ کے لئے میڈیا ورکشاپس کا انعقاد کرنے کے ساتھ ایسے پروگرامز نشر کئے جائیں جو ہماری ثقافت، مذہبی اقدار کی صحیح ترجمانی کریں۔ ہلکے پھلکے تفریحی ڈراموں کے ساتھ معاشرتی مسائل پر مبنی اور اخلاقی اقدار سے متعلق ڈرامے بنائے جائیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں اعتدال کی راہ اپنائی جائے جس کے لئے والدین اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ بغیر معلومات کے کسی بھی معلومات کی تشہیر نہ کی جائے۔ ان اقدامات کے ذریعے ہی میڈیا سماج میں فعال کردار ادا کر سکتا ہے اور صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔
بقلم کاشف شہزاد