امریکا کا غرور خاک میں ملانے کے لیے چین نے مختلف محاذوں پر اپنا اثر رسوخ بڑھانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ چین معاشی اعتبار سے امریکا کے ہم پلہ نہیں لیکن اس سے کسی بھی طرح پیچھے بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکی اجارہ داری پر سوالات کھڑے کر دئیے۔ پاکستان میں چین کے سی ہیک جیسے عظیم الشان منصوبہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاتی محض اس لیے نہیں کہ وہ اس منصوبے کے ذریعے منافع کمانے کا آرزومند ہے بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک بالخصوص جبوبی ایشیاء سے جڑے ہوئے تمام ملکوں کو انداہ ہے کہ اس منصوبے سے خطے کی ترقی اور دنیا سے تجارتی تعلقات میں آسانی کے راستے کھل جائیں گے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ فائدہ اس لیے ہوگا کہ یہ منصوبہ ایسا کوریڈور ثابت ہوگا جو ملک کی خوشحالی کا ضمانت ہے۔ اسی لیے بھارت کو سی پیک جیسا منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھا رہا اور امریکا اس معاملے میں بھارت کا ہم خیال ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو مقبوضہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر کے اب خاموش تماشائی بن کر کھڑے ہیں اور چین کے اقوام عالم میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر بے حسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ امریکہ ہمیشہ عالمی اقتدار کی طمع میں رہا ہے جبکہ چین دُنیا پر مکمل قبضہ کا کبھی خواہشمند نہیں رہا بلکہ یہ ہوس ہمیشہ امریکا میں دیکھنے کو ملی جو اپنی دھونس اور دھمکی کی وجہ سے صرف طاقتور ملکوں کا ہم خیال اور اتحادی رہا ہے۔ چین نے امریکا کی اس غلط فہمی کو بھی دور کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ تن تنہا دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ اسی طرح بعض متنازعہ معاملات میں چین نے بھارت کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی جسکا ثبوت پچھلے کچھ عرصہ سے چین اور بھارت کے درمیان مشترکہ سرحد لداخ کا تنازع ہے۔ اس محاذ پر چین نے بھارت کو نہ صرف خون کے آنسو رلایا بلکہ یہ چین کے اثر رسوخ کا ہی نتیجہ ہے کہ اب نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش نسبتاٙٙ کمزور ممالک بھی بھارت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ لداخ ایک بار پھر چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے اس محاذ پر دو ماہ قبل ہونے والی کشیدگی کو 1999میں انڈیا کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جا رہا تھا اس سے قبل 2017میں انڈیا اور چین کی افواج ڈوکلام کے مقام پر آمنے سامنے آئیں تھیں لیکن کچھ عرصہ قبل مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ سمیت انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے مختلف مقامات پر دونوں جانب سے افواج کی موجودگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ان حالیہ واقعات کے بعد بھارت کی وزارتِ دفاع نے الزام عائد کیا ہے کہ چینی فوجیوں نے ہفتے کے روز سرحد پر سٹیٹس کو کو تبدیل کرنے کے لیےاشتعال انگیز فوجی پیش قدمی کی تھی۔ دوسری جانب چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے کہا کہ بھارت نے پیر کو ایک آپریشن کے دوران چین کی علاقائی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی کی جس پر چینی فوج نے مطالبہ کیا کہ بھارتی دستے فلفور یہ علاقہ خالی کر دیں۔ یہ واقعات ایسے وقت میں پیش آئے جب دونوں ممالک کے فوجی کمانڈر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کی موجودہ پالیسی پاکستان کے مفاد میں ہے لیکن اس پالیسی سے خود پاکستان کتنا فائد اٹھاتا ہے اسکا انحصار پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل سے وابستہ ہے کیونکہ چین ہر قدم پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کو اپنے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کرنا ہے لیکن یہ بات زہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ملک کے حکمرانوں کو اپنی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے لیے بلا تاخیر فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ چین اگلے چند ماہ میں ایسے فیصلہ کن اقدامات اٹھا سکتا ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر آزاد کروانے میں مدد مل سکتی ہے۔